Urdu News

‘‘کمال کی شخصیت تھے ’’کمال خان

تسنیم فردوس

تسنیم فردوس

بٹلہ ہاوس جامعہ نگر،نئی دہلی

انسانیت خلوص و محبت بیان میں تھی

تہذیب لکھنوی کی وہ زندہ مثال   تھے

تھے اسم با مسمٰی یقیناً کمال خان

میدان میں میڈیا کے بڑے با کمال تھے

(ڈاکٹر اسد رضا خان)

کمال خان جنھیں صحافت کی معتبر اور توانا آواز مانی جاتی تھی۔۔ اب یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے۔ این ڈی ٹی وی کے مشہور اینکر و صحافی کمال خان کا انتقال ہو گیا۔انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔کمال خان نے جمعہ کی صبح لکھنؤ میں اپنی رہائش گاہ پر آخری سانس لی۔ ان کی شادی صحافی روچی کمار سے ہوئی تھی۔ان کے انتقال پر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مشہور صحافی واینکر رویش کمار نے اس موقعہ پر اپنے تعذیتی پیغام میں کہا ہے کہ "کمال خان کے اچانک انتقال پر ہم لوگ حیرت ذدہ ہیں"صحافت سے جڑی شخصیات نے ان کی ناگہانی موت کو روشن اور معتبر صحافت کا ناقابلِ تلافی نقصان بتایا ہے۔ معروف صحافیوں نے کمال خان کے اچانک انتقال پر گہرے غم اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے صحافت کے ایک باب کا خاتمہ قرار دیا ہے۔

ان کی تدفین لکھنؤ کے عیش باغ قبرستان میں عمل میں آئی

"کمال خان "صرف ایک نام ہی نہیں تھے بلکہ صحافت کی دنیا کی ایک حیرت انگیز شخصیت تھے۔ صحافی سوہت مشرا نے کہا کہ" کمال خان صاحب اپنے آپ میں ایک کتاب تھے انھیں دیکھ کر نہ جانے کتنے لوگوں نے آسان طریقے سے رپورٹ کرنے کی تحریک لی"۔ کمال خان صاحب نے ایک الگ زاویے سے اور الگ انداز میں سب کچھ بتا کر ہم سب کے دلوں میں ایک الگ جگہ بنالی ہے۔ "کمال خان" بیباک، ایمان دار اور سیکولر اقدار کے حامل  صحافی تھے۔ وہ صحافت کے اصولوں کے پابند تھے، جمہوریت کی مظبوط آواز تھے۔ انہوں نے ہمیشہ حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کی اور ایماندارانہ صحافت کی مثال قائم کی۔

"کمال خان "ایک سچے، کھرے اور انتھائی مہذب اور سماج کو دشا دکھانے والے  این ڈی ٹی وی چینل کے سینئرصحافی تھے۔ ایسے صحافی مشکل سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تقریباً تین دہائی سے وہ این ڈی ٹی وی ہندی چینل سے جڑے تھے۔ انھوں نے پچیس تیس سال میں ایودھیا کی رپورٹنگ کی ہے۔ اگر انھیں جمع کیا جائے تو بے شک کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کا اچانک اس طرح دنیا سے رخصت ہو جانا این ڈی ٹی وی چینل کا ہی نقصان نہیں ہے۔ بلکہ ہندوستانی صحافت کا بڑا بھاری نقصان بھی ہے ۔ روش کمار نے ایک جگہ کہا ہے"دوسرا کمال خان پیدا ہونا مشکل ہے۔"

کمال خان معیاری و شائستہ زبان کا استعمال کرتے تھے۔ خبروں کے واقعات اور حالات حاضرہ پر رپورٹنگ کرنے کا منفرد انداز تھا۔ انھوں نے اپنی صحافت کے ذریعے بہت اہم مسائل سامنے لاۓ۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ ایک دانشور صحافی کی طرح تھے۔ انھیں چوپائیاں زبانی یاد تھیں۔ اور موقع بہ موقع اس کا استعمال کرتے تھے۔ یوپی اور لکھنؤ کے سیاسی منظر نامے کو اپنی نم اور پھٹی آنکھوں سے انھوں نے بدلتے دیکھا۔ اور لوگوں تک اسے جس کا تس پہنچایا۔انھیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں "رام ناتھ ایوارڈ" دیا گیا تھا۔سینئر صحافی ہونے کے باوجود وہ فیلڈ کی رپورٹنگ کرنا پسند کرتے تھے اور وہ اس میں بھی  خاصی مہارت رکھتے تھے۔اور اپنے منفرد انداز نے ملک بھر کے صحافیوں کو متاثر کیا۔

سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے۔ ان کی قصہ گوئی کا انداز مسحور کن تھا اور ان میں خبروں کو سونگھنے کی فطری صلاحیت تھی۔ وہ لکھنوی اور گنگا جمنی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ شاعری کی زبان میں اور شرافت کے لہجے میں بعض اوقات اس طرح  دل برداشتہ ہو کر رپورٹنگ کرتے تھے کہ سننے، دیکھنے والے کا دل بھر آتا تھا۔ نئی صحافت اور سچچی صحافت کو زندہ رکھنے اور دیکھنے کی امید جگائ تھی کمال خان ایک زندہ مثال تھے۔ وہ ایک مثال رہیں گے۔ وہ کمال تھے، وہ کمال رہیں گے۔

ایک تجربہ کار، مطالعہ پسند، سنجیدہ، مزاحیہ اور منجھے ہوئے صحافی تھے کمال خان۔ کمال نے کبھی لکھنؤ نہیں چھوڑا کمال کی زبان ، تحریر اور آواز میں ایک لکھنؤ جھلکتا تھا۔ لکھنؤ بھی انھیں کبھی نہیں چھوڑنے والا تھا۔افسوس! ہندوستان میں پھلتی پھولتی صحافت سے لوہالیتا کھرا، سچا، شریف اور مہزب صحافی رخصت ہو گیا۔

کمال خان ایک آئیڈیل صحافی تھے، انھوں نے  ملک اور سماج کو بہت کچھ دیا ہے۔ انھوں نے کبھی مذہب کے نام پر کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں کیا، سچ کو آگے بڑھایا۔

کمال کسی سیاسی پارٹی کے حق میں نظر نہیں آۓ۔ ان کی کسی سے دوستی یا دشمنی نہیں دیکھی۔ وہ  بہت پیشہ ور تھے۔انہوں نے صحافت کے معیار کو بلند کیا۔یقینی طور پر کمال خان کی وفات صحافت کی دنیا کا ایک بڑا خسارہ اور نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔۔۔ آمین

زندہ باد کمال خان! الوداع

کرتا رہتا تھا جو دنیائے صحافت میں کمال

اعلیٰ درجہ کے نمائندوں میں تھا اس کا شمار

تھی رپورٹنگ اسکی بیباک اور سچ کی آئینہ دار

تھا نمائندہ وہ سچ کا آپ خود اپنی مثال

نام تھا اس کا کمال اور کرتا رہتا تھا کمال

چھوڑ کر اپنی کہانی اور اپنی داستان

آہ! رخصت اس دیارِ فانی سے وہ ہو گیا

ہوگئی خاموش ہائے! سچ کی آواز اس طرح

شام سے پہلے ہی سورج ڈوب جائے جس طرح

Recommended