تسنیم فردوس
کوچین،کیرلا
کفر دم توڑ دے ٹوٹی ہوئی شمشیر کے ساتھ
تم نکل آؤاگر نعرۂ تکبیر کے ساتھ
ایک دور تھا جب ہماری پہچان محمد بن قاسم صلاح الدین ایوبی وٹیپو سلطان جیسے جنگجو سپاہیوں سے کی جاتی تھی۔ جن کی فتح کے ڈنکے ساری دنیا میں بج رہے تھے۔ جن کی بہادری، دلیری، عدل وانصاف کے قصے دشمنانِ اسلام کی زبانوں پر تھے۔ آج وہی مسلمان اپنے حق وانصاف کی خاطر خاموش کھڑے ہیں۔ اپنی اصل پہچان کھوکر زمین پہ رینگنے والے بنا ریڑھ کے جاندار بن چکے ہیں۔
مسلمانوں کی موجودہ صورت حال بےحد افسوسناک اور ناقابلِ تحریر ہے۔ ہر جگہ مسلمان ظلم و زیادتی، خوف ودہشت، قتل وفساد جبر وتشدد اور ذلت وپستی کے شکار ہیں۔ کہیں پر داڑھی رکھنے پر پابندی، کہیں پر اذان پر پابندی، کہیں پر تعمیر مسجد ومدرسے پر پابندی، کہیں پر حجاب کی پابندی، کہیں پر اسلامی ادارہ پر پابندی، کہیں پر اسلامی فنکشن پر پابندی پائی جاتی ہے۔ ان اقدام سے نمٹنے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے اقدام نہیں یہ سب سے حیرت ناک ہے۔ان کی یہ خاموشی کی وجہ سے دشمن کبھی ہماری بہنوں کی عزتیں پامال کر رہے ہیں، معصوم بچیوں کو روند رہے ہیں تو کبھی گلیوں، چوراہوں پہ ہمارے بزرگوں کی داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں، کہیں کسی کو جانور کے نام پہ قتل کیا جا رہا ہے۔
اس پہ ستم ظریفی تو دیکھیں مظلوم ہونے کے باوجود مسلم نوجوانوں کو ہی گنہگار ٹھرایا جاتا ہے۔ انصاف کا مطالبہ کرنے پر گرفتار کرکے سالوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ جھوٹااینکاونٹر کر دیا جاتا ہے۔
آج ملک میں جو حالات پیش آرہے ہیں اب تو ہر انسان کا ایک ایک پل خوف کے ساۓمیں گزر رہا ہے۔ صبح گھر سے نکلتے ہیں اس بات کا یقین نہیں رہتا کہ شام میں اپنوں کو دوبارہ دیکھ پائیں گے بھی کہ نہیں۔
ملک کی آب و ہوا میں نفرت کا زہر گھول کر اس قدر خوفناک بنا دیا گیا ہے کہ ہر چہرہ پر ڈر، ہر آنکھ اداس، ہر دل مایوس ونا امید ہے۔اور یہ سب ہماری خاموشی کی وجہ سےہے۔ کیونکہ کوئی بھی ہم پہ اس وقت تک حاوی نہیں ہو سکتا جب تک ہم اسکو موقع نہ دیں۔ الله تبارک وتعالی نے اپنے بندوں کو بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کی خاطر کئی قسم کی مثالیں پیش کی ہیں مثلاً ایک چیونٹی بھی ہاتھی پہ بھاری پڑ جاتی ہے۔ ایک حقیر سا کیڑا بھی اپنی دفاع کے لئے حملہ آور ہوتا ہے۔ لیکن ہم اس چیونٹی اور کیڑے سے گۓگزرے ہو چکے ہیں۔ ہماری اس بزدلی سے سنگھی بخوبی واقف ہیں۔ انھیں یقین ہو چکا ہے کہ ہم ذہنی طور پر اپاہج ہو چکے ہیں۔ جبکہ قرآن پاک میں الله سبحان تعالیٰ خود اسکا حکم دیتا ہے کہ اپنی جان و مال آبروایمان کے خاطر دشمنان اسلام سے ٹکر لیں۔ حق کی خاطر لڑتے ہوئے شھادت کو اپنائیں۔ لیکن افسوس صد افسوس ہم نے الله کے بتائے ہوئے احکامات کو بھلا دیا ہے۔ اس لئے ہم بار بار ستاۓجا رہے ہیں، ذلیل و خوار کۓجا ریے ہیں۔
یاد رہے ہمارے حالات اس وقت تک نہیں بدلیں گے جب تک ہم خود کو نہ بدلیں گے۔ اس لئے حالات کی سنجیدگی کے مد نظر ٹھوس اقدامات اٹھائیں کیونکہ ایسے میں اگر ہم اپنے حالات بدلنے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائیں گے تو بقول علامہ اقبال
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی کے مسلمانوں
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
الله سبحان تعالیٰ بھی انھیں کی مدد فرماتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔صبر کے تمام پیمانے لبریز ہو چکے ہیں۔ اب ہمیں ظلم کے خلاف مل کر آواز بلند کرنا ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلمان اپنی حالت کو بہتر کرنے کے لئے کون سے اقدام کریں۔۔۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر ہمت وجرات پیدا کرنا ہوگا، اپنے حقوق کو پانے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مسلم اتحاد دکھانا ہوگا۔ہمیں اپنے خالق کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ ہمیں قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ الله کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کو عملی زندگی میں اتارنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں اپنے قوت بازو پر یقین رکھنا ہوگا۔۔۔ظالموں کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔انشاءاللہ پھر ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونی منظر سے
اس حال میں جینا لازم ہے جس حال میں جینا مشکل ہے