Urdu News

خودغرض بنا دیتی ہے، شدت کی طلب بھی

عامر سہیل

عامر سہیل

ایک بابا جی اپنے بیٹے کو بڑی زبردست نصیحت کر رہے تھے کہ دیکھو بیٹا اپنے آپ کو کبھی بھی متاع کی حرص و ہوس کے حصار میں قید مت کرنا، اگر اِس کے حصار میں خود کو قید کر لیا تو پھر احساس، فکرِ حشر، خدمتِ خلق، شائستگی، مروت، بندگی، انسانیت، ہمدردی اور اخوت جیسے خصائص سے عاری ہو جاؤ گے، اور بعد از مرگ بھی تمہاری پہچان کیا ہو گی؟ فقط یہی کہ لوگ کہیں گے بڑا"لالچی "انسان تھا، بشریت کے ساتھ کبھی اچھا برتاؤ نہیں کیا، تمام زیست صاحبِ منعم بننے کے لیے تگ ودو کرتا رہا، بیٹا اپنے پیچھے اپنا یہی حوالہ چھوڑو گے؟

دولت کے واسطے عقل و فہم سے ماورا ہو کر مت سوچو اور انسانیت کے لیے دل میں درد جگاؤ، جب اس امر کے لیے صدقِ دل سے جُٹ گئے تو دنیا و آخرت سنور جائے گی، بصورتِ دیگر آنکھ موند لینے کے بعد یہ دنیا تمہیں "دھن کا پجاری"اور"مال کا بھوکا"ان استعاروں کے طور پہ یاد رکھے گی، لالچ تو ایسا قبیح امر ہے کہ جس نے بھی اپنایا اس نے پھر انسانیت اور بشریت کو حیوانیت اور ظلمیت کی نگاہ سے دیکھا، اس نے پھر دوسروں انسانوں کو نیچا دکھانے اور مال و متاع میں ان سے بڑھ جانے کی ضد اور لالچ میں سب کچھ بھلا ڈالا، وہ انسانیت کے معیار سے گرتا چلا گیا اور اپنی دنیا اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کی، تھوڑی پر قناعت نہیں کی بلکہ حرص میں زیادہ کی طرف متوجہ ہوا، مشغول ہوا،اب اسی طمع میں آ کر بھائی، بھائی کا دشمن ہے، باپ بیٹے کا، بیٹا باپ کا دشمن، معاشرے میں ہر سمت دشمنی کا رواج پڑتا چلا گیا ہے، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں، دولت کے حصول کی دھن نے سب کو اندھا کر دیا، لوگ اس اپج کی وجہ سے احساس اور رشتوں سے ماورا ہو کر سوچنے لگے ہیں، لوگوں نے اپنا دین، ایمان اور سب کچھ فقط حصولِ دولت کی تگ و دو کو ہی سمجھ لیا ہے، جو غریب ہوتا ہے اسے اب حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے محسن نقوی نے کہا تھا کہ

جس کی چوکھٹ پہ غریبی کا شجر ہو محسن

اس کی ہر بات زمانے کو بری لگتی ہے

ہم نے مال و متاع کو انسانیت پرکھنے کی کسوٹی تصور کر لیا ہے، اس کی وجہ سے ہم درست اور غلط کی تفریق محو کر بیٹھے ہیں، ہم نے اس کی وجہ ہر جاہ اپنے عدو پیدا کر لیے ہیں، ہمیں اب جان کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ نہیں معلوم کب اور کہاں اس دولت کی وجہ سے ہمیں جان سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں، اس لالچ نے ہمیں گمراہی اور بے توجہی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے اور ہم بھی بڑے شوق سے اس تباہی کی سمت دوڑے ہیں، اچھے، برے کی تمیز کو مٹا دیا ہے، اب ہمارا مقصدِ حیات دونوں ہاتھوں سے جیب بھرنا ہی رہ گیا ہے بس، ہم اس مقصد کے حاصل واسطے کسی مجبور یا لاچار کو نہیں دیکھتے، ہمیں تو بس فکر لاحق رہتی ہے کہ ہم نے اپنی جیب میں کتنے پیسے ٹھونس دیے ہیں اور کتنی خالی رہ گئی ہے،

ہمیں تو اس سے سروکار ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی جیب تو گرم کر رہے ہیں لیکن کیا کسی کی شکم کی آگ بجھانے واسطے جمع کی گئی پونجی سے تو اپنے ہاتھ صاف نہیں کیے، نہیں نہیں ہمیں اس سے کوئی غرض یا مطلب نہیں، ہمیں تو بس خود کو صاحبِ منعم کہلوانا ہے، اب اس کیلئے کسی کو کوئی بھی اور کیسا بھی نقصان پہنچتا ہے تو پہنچے، ہمیں تو بس اپنی لالچ کو تکمیل تک پہنچا دینا ہے اور بس۔۔۔

Recommended