Urdu News

لفظوں کے پیچھے چھپی تہذیب: تہذیبی فرہنگ‘‘اردو ادب میں گراں قدر اضافہ’’

نعیمہ جعفری پاشا کی کتاب’’لفظوں کے پیچھے چھپی تہذیب‘‘ کا اجرا شرمیلا ٹیگور، کپل سبل اور اخترالواسع کے بدست

رپورتاژ

سراج عظیم، نئی دہلی

زبانیں اور سماج دونوں بدلتے رہتے ہیں: کپل سبل

ذمہ داری سےسب اپنا حصہ ادا کریں تو اردو آنے والی نسلوں تک پہنچے گی: شرمیلا ٹیگور

زوال زبانوں کا نہیں معاشروں کا ہوتا ہے: اخترالواسع

اردو کی معروف ناول و افسانہ نگار، بچوں کی ادیبہ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا کی کتاب ” لفظوں کے پیچھے چھپی تہذیب۔۔۔۔ تہذیبی فرہنگ “کی رسم رونمائی انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے کانفرنس ہال میں عمل میں آئی۔ جلسہ کی صدارت سابق مرکزی وزیر اور ماہر قانون جناب کپل سبل نے فرمائی۔ جب کہ مشہور زمانہ اداکارہ پدم بھوشن شرمیلا ٹیگور صاحبہ مہمان خصوصی اور سابق چانسلر مولانا آزاد اردو یونیورسٹی جودھپور، پدم شری پروفیسر اخترالواسع مہمان ذی وقار کی حیثیت سے شریک ہوئے۔

 اس کے علاوہ حاضرین محفل میں زندگی کے ہر شعبہ حیات کی مقتدر شخصیات موجود تھیں۔ محترم کپل سبل نے ڈاکٹر نعیمہ جعفری کو اس اہم تاریخی کتاب کے اجرا پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اردو کے حوالے سے کہا کہ اردو اسی ملک کی زبان ہے۔ انھوں نے کہا کہ زبانیں اور سماج تغیر پذیر ہیں وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

کپل سبل صاحب سامعین سے خطاب کرتے ہوئے

 ولیم شیکسپیئر کے زمانے کی انگریزی الیزابیتھین انگریزی کہلاتی تھی خود شیکسپیئر نے 1700 الفاظ انگریزی کو دیئے، راجاؤں کا دور تھا وہی زبان بولی جاتی تھی دور بدلا انگریزی بھی بدلی اس دور کے آنے تک وہ الفاظ بھی بدل گئے۔ آج کی نسل باپ کو یار کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ اس زمانے میں اگر کسی عورت کے بارے میں کہتے کہ وہ آدمی اس کا یار ہے تو وہ بدکردار سمجھی جاتی تھی۔

آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے کوئی کتاب نہیں پڑھتا اتنی بھی فرصت نہیں کہ یہ معلوم کرے کہ لفظ کی اسپیلنگ بھی درست ہے کہ نہیں۔ انھوں نے مزید کہا جیسے جیسے ماڈرنائزیشن اور گلوبلائزیشن ہوتا جائے گا کلچر اور زبان بدلتے جائیں گے۔ پہلے مقدمے ، ایف آئی آر سب اردو میں ہوتے تھے۔ اس کے بعد کپل سبل صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں اپنی ایک خوبصورت غزل پیش کی۔

 شرمیلا ٹیگور نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ان کی پیدائش بنگالی خاندان میں ہوئی،بنیادی تعلیم بنگالی میں اور کالج کی پڑھائی انگریزی میں ہوئی۔فلم انڈسٹری میں بھی انگریزی ماحول تھا۔انھوں نےمعذرت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اردو نہیں آتی حالانکہ میں نے فلم انڈسٹری کے سارے مشہور اردو رائٹرس نغمہ نویسوں کے ساتھ کام کیا۔

شرمیلا ٹیگور صاحبہ کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے

 میری جب ٹائیگر سے شادی ہوئی تب اردو زبان کے تعلق سے میری سسرال میں نوابی تہزیب کے بڑے خوش گوار تجربے ہوئے۔ سب میری ساس کو اماں کہتے تھے۔ ایک دن اماں کے سامنے کھانے کے بعد میں نے نوکر سے کہا کہ “کھانا اٹھا لو” اماں نے مجھ سے کہا ” جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ کھانا سمیٹا جاتا ہے “ایسے ہی ایک دن اماں کا چشمہ میں تلاش کررہی تھی۔

میں نے پوچھا چشمہ کہاں ہے تو ٹائیگر بولے چشمہ دیکھنا ہے تو شملہ یا اوٹی جانا پڑے گا۔ مگر آنکھوں پر عینک لگائی جاتی ہے۔ یہ محلات کی تہزیب تھی۔سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اردو نہیں آتی۔ ایسے میں ڈاکٹر نعیمہ جعفری نے مجھے یہاں بلایا اس قدر محبت سے نوازا میں اس کے لیے ان کا ان کی فیملی اور آپ تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ انہوں نے کہا اگر اردو والے اپنی ذمیداری سمجھ کر اپنے حصہ کی ادائیگی کریں تو اردو زبان کو آنے والی نسلوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

پروفیسر اخترالواسع نے اپنے مخصوص انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ صاحبو اس محفل میں شرمیلا ٹیگور صاحبہ کو مدعو کرنے کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ شرمیلا جی بنگالی ہیں۔بنگال وہ سرزمین ہے جہاں سے اردو صحافت کی دوسو سالہ تاریخ کا پہلا اخبار شائع ہوا۔ اس لیے ہم اردو والوں کا یہ فرض ہے کہ ہم بنگالیوں کا احترام کریں۔

 تو محترمہ شرمیلا ٹیگور صاحبہ کا ہم دل کی گہرائیوں سے یہاں استقبال کرتے ہیں۔انھوں نے اردو اور ہندی زبان کے تعلق سے فلمی گانوں اور گوپال داس نیرج صاحب کا ذکر کرتے ہوئے کہا نیرج صاحب ہندی کے آدمی اور ہندو تھے۔ لیکن ان کے گاؤں میں اردو کی چاشنی ملے گی۔انھوں نے کئی گاؤں کے اشعار سناتے ہوئے کہا۔

کارواں گزر گیا ہم غبار دیکھتے رہ گئے

ایسے ہی

شوخیوں میں گھولا جائے پھولوں کا شباب

پھر اس میں ملائی جائے تھوڑی سی شراب

 ہوگا یوں نشہ جو تیار وہ پیار ہے

اب بتائیں ایک ہندی والے نے اتنے خوب صورت اردو کے الفاظ استعمال کرکے مقبول گانا لکھا۔ انھوں نے کپل سبل صاحب سے اپنے دیرینہ تعلقات اور ان کی وزارت کے وقت میں ایک کمیٹی کا چئیرمین بنائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کپل صاحب نے آپ لوگوں کو اپنے والد کے اردو داں ہونے کے بارے میں تو بتایا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان کے والد منٹو کے وکیل رہے ہیں۔

 صاحبو زبانوں کا زوال نہیں ہوتا بلکہ معاشروں کا زوال ہوتا ہے۔ اس لیے جب تک اردو آپ کے گھروں میں رہے گی یہ زوال پذیر نہیں ہوگی۔پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ نعیمہ جعفری کی یہ تاریخی فرہنگ اتنی ضخیم اور بھاری ہے کہ میں ہارٹ کا مریض ہونے کی وجہ سے ہاتھ میں نہیں اٹھا سکتا ، اس کے بعد بھی میں نے کتاب کا مطالعہ کیا میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جو اس کتاب کو پورا پڑھے گا اس کے علم میں کئ گنا اضافہ ہو جائے گا اور وہ اپنے آپ کو قابل جاننے لگے گا۔

این سی ای آر ٹی کے اردو آفیسر معظم الدین نے کہا یہ تہذیبی فرہنگ ڈاکٹر نعیمہ جعفری کی خود تہزیب کی چشم دید گواہ کے طور پر ہے۔ اس سے متاثر ہوکر ہم اسکولی بچوں کے لیے بھی چار زبان اردو ہندی انگریزی اور سنسکرت میں فرہنگ کی تیاری میں نعیمہ جعفری کی مدد لے رہے ہیں۔

 مشہور صحافی طنزومزاح نگار اور بچوں کے ادیب اسد رضا صاحب نے نعیمہ جعفری کی اس تہذیبی فرہنگ کی رونمائی پر ان کی خدمت میں توصیفی قطعہ پیش کیا اور سامعین سے داد وصول کی۔ آخر میں آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کے سکریٹری، بچپن واٹس ایپ گروپ کے بانی اور معروف ادیب الاطفال سراج عظیم نے کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے مقالہ پیش کیا۔

 انھوں نے ڈاکٹر نعیمہ جعفری کو اس تاریخی کتاب کو تصنیف کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان سے اپنے روحانی رشتے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ان سے تین رشتے ہیں۔ ایک بہن کا، ایک والد کی شاگردہ کا تیسرا خالص ادبی رشتہ۔ انھوں نے کبیر کے دوہے

گرو گوبند دوؤ کھڑے کا کے لاگوں پائے

بلیہاری گرو آپ نے گوبند دیو بتائے

کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نعیمہ باجی میرے والد کی براہ راست شاگردہ نہیں تھیں، مگر انھوں نے جامعہ میں ان کی ہیڈ شپ میں شعبہ اردو میں داخلہ لیا تھا۔ اس لیے انھوں نے تہذیبی وراثت اور خاندانی روایات کا پاس کرتے ہوئے ان کو استاد کا درجہ دیا،ان کا ذکر بہت احترام سے کرتی ہیں اسی استاد اور شاگرد کے رشتہ کےلحاظ سے میرے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات رکھتی ہیں۔

اس ناطے وہ میرے لیے محترم ہیں۔ یہ ان کی خاندانی تہذیب کی دین ہے۔ میں ڈاکٹر نعیمہ کی کلاسیکی اردو کا شیدائی ہوں۔ نعیمہ نے اپنی اس کتاب میں راجستھان، روہیل کھنڈ، مغلیہ اور اودھی تہذیب کو محفوظ کیا ہے جو انھوں نے بذات خود جیا ہے۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر نعیمہ جعفری کی صاحبزادی سیمیں پاشا نے نے بڑے دلچسپ انداز میں مہمانان اور حاضرین محفل کا استقبال کرتے ہوئے کیا۔

 پروگرام کے شروع میں ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی کتاب کا تعارف پیش کیا اور بتایا کہ یہ کتاب ایک تہذیبی فرہنگ ہے۔ جو اس کے نام سے ظاہر ہے۔ہماری زبان اردو نہ صرف بولنے کا ذریعہ بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے۔ ہر لفظ ہر اصطلاح، ہر محاورہ اور ہر ضرب المثل کے پیچھے ایک رنگا رنگ گنگا جمنی تہذیب چھپی ہے۔ جو ہمیں دوسری زبانوں میں ملنا، مشکل ہے۔

المیہ یہ ہے کہ جو الفاظ ہماری تہذیب کا نمائندہ ہوتے تھے دھیرے دھیرے منظر نامہ سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔نئی نسل زبان و تہذیب سے ناواقف ہوتی جارہی ہے، اسی کو بچانے کی میری یہ کوشش ہے۔ اس کتاب میں جو الفاظ ہیں وہ کسی کتاب سے نہیں لیے گئے بلکہ یہ میری یاد داشت میں محفوظ الفاظ ہیں جو میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے گھر خاندان میں سماعت کئے تھے۔

 ان کو دوسال تک میں نے یاد کر کرکے لکھا اور بعد میں ان کے معنی و مطالب ایسے نہیں لکھے جو عام لغت میں ہوں ،بلکہ ہر لفظ کے پیچھے جو کہانی،تہذیب اور منظر نامہ ہے اس کو بیان کیا گیا ہے۔ نعیمہ پاشا نے بتایا یہ کتاب ایک ہزار سے زائد صفحات اور چوبیس ابواب پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا صوری اورمعنوی خوب صورتی سے مزئین ٹائٹل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آرٹس کالج کے سابق پروفیسر غفران قدوائی نے بنایا ہے۔

 باقاعدہ پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے نعیمہ جعفری کے سب سے چھوٹے بیٹے نظام پاشا نے نظامت کے فرائض انجام دئے اور پروگرام کو بخوبی آخر تک لے گئے۔ پروگرام کا اختتام نظام پاشا کے شکریہ کے ساتھ ہوا۔ ہائ ٹی پر سراج عظیم سے بات کرتے ہوئے خواجہ شاہد صاحب سابق رجسٹرار جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا یہ کتاب تہذیب کی روداد ہے۔

 ڈاکٹر شعیب رضا خان اسسٹینٹ ڈائریکٹر اردو این آئ او ایس نے کہا اردو ادب کی تاریخ میں یہ کتاب ڈاکٹر نعیمہ کو امر کردے گی۔ نعیمہ جعفری کی دوست عذرا نقوی نے کہا مجھے نعیمہ کے اس دستاویزی کام پر فخر ہے۔ شارق اعجاز عباسی نے کہا کہ میں تو حیرت میں ہوں کہ یاداشت پر اتنا ضخیم کام۔ مشہور افسانہ نگار اور بنات کی صدر نگار عظیم نے کہا یہ اردو ادب، سماج اور بنات کے لئے تاریخی کام ہے اس کے لئے نعیمہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

اردو ادب کی نامور شخصیات اس کتاب کے اجرا میں موجود تھیی۔جن میں دہلی یونیورسٹی کی صدرشعبۂ اردو پرفیسر نجمہ رحمانی، پروفیسرغفران قدوائی،معروف افسانہ نگار اسرار گاندھی، خورشید اکرم، خورشید حیات، معروف نقاد حقانی القاسمی، ڈاکٹر خالد مبشر، صحافی سہیل انجم، رخشندہ روحی اور کافی تعداد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرز موجود تھے۔

Recommended