Urdu News

لاہور کا اخبار’’ملاپ‘‘جو آج بھی دہلی سے ہوتا ہےشائع،آئیے جانتے ہیں تفصیلات

روزنامہ ملاپ

نئی دہلی ،17؍ فروری

قیام پاکستان کے بعد اردو روزنامہ ‘ملاپ‘ لاہور سے دہلی منتقل ہوا اور کئی دہائیوں کے نشیب و فراز کے بعد بھی آج تک روزانہ شائع ہوتا ہے۔

اس اخبار کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ شائع ہونے والے دوسرے اردو اخبارات کی طرح یہ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اس اخبار کو انڈیا کا سب سے قدیم اخبار بھی کہا جا سکتا ہے۔

اس اخبار کے مالکان نے بھگت سنگھ کو جیل میں ایک خبر دینے کے لیے پورا اخبار شائع کردیا تاکہ اس میں جلیبی لپیٹ کر ایک خاص خبر کو بھگت سنگھ تک پہنچایا جائے۔

اس واقعے پر ملاپ اخبار کے مالکان آج بھی نازاں ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ اخبار اردو کے عام قارئین میں مقبول نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود اس اخبار کو ساری سرکاری مراعات حاصل ہیں۔ اخبار کے مدیر نوین سوری اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے اخبار کی ریڈرشپ الگ ہے جو بیرونِ ملک زیادہ ہے۔

سوری نے مزید بتایا کہ ’یہ اخبار نہ صرف روزانہ شائع ہوتا ہے بلکہ اس کے پاس اپنا ایک ڈیجیٹل پیج بھی ہے، جسے ملاپ کے دفتر میں ہی چلایا جاتا ہے۔ ملاپ کا دفتر دہلی کے مشہور اخبارات کے دفاتر والے علاقے بہادر شاہ ظفر میں ہے۔ ملاپ کے پاس اپنی عمارت ہے، جس میں دیگر اخبارات کے دفاتر کرائے پر چلتے ہیں۔‘

نوین سوری اپنے خاندان کی لاہور سے وابستگی پر فخر بھی ظاہر کرتے ہیں اور ہندوستان ہجرت کرنے کو ’کرپا‘ یعنی خدا کی عنایت مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر جگہ کی ایک اہمیت ہوتی ہے، جس کی چاہت وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔

نوین سوری اب عمر کے اس حصے میں علیل رہتے ہیں، اداریہ لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم کا استعمال کرتے تھے مگر ہاتھوں میں زیادہ حرکت ہونے کی وجہ سے اب وہ آئی پیڈ کا استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے انتقال پر اداریہ لکھنے کے بعد انہوں نے انڈپینڈنٹ سے خصوصی بات کی اور بتایا کہ ان کا اخبار دیگر اردو کے اخبارات سے الگ کیوں ہے۔

ان کا کہنا ہے: ’ہندوازم کی اصلاحی تنظیم آریہ سماج کے ذمہ داروں کے مشوروں سے 13 اپریل 1923 کو لاہور سے ملاپ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ لاہور میں انارکلی بازار ہے، جس میں گنپت روڈ ہے، جو اپنے وقت کی مشہور شاہراہ رہی ہے، وہاں آریہ سماج کی ایک عمارت تھی، جس کی اوپری منزل میں ملاپ کا دفتر کھولا گیا، اخبار کی اشاعت کا سلسلہ کافی طویل عرصہ تک چلا اور 1947 میں جب بٹوارہ ہوا تو سوری کا خاندان لاہور سے دہلی آگیا۔‘

سوری نے بتایا کہ 1949 میں خاندان کا ایک حصہ جالندھر چلا گیا اور ایک حصہ حیدرآباد گیا تو باقی دہلی میں رہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 1949 کے آخر میں یا 1950 کے شروع میں جالندھر سے اردو اور ہندی دونوں زبان میں ملاپ شائع ہونا شروع ہوا اور حیدرآباد میں ہندی اور اردو میں شائع ہوتا تھا۔ دہلی سے صرف اردو میں ملاپ اخبار شائع ہوتا تھا اور آج تک صرف اردو میں ہے۔

نوین سوری نے اپنے دادا کی زندگی میں گزرے ایک واقعے کے بارے میں بتایا: ’ان کے دادا خوشحال چند جو کہ ایڈیٹر تھے، کی سردار بھگت سنگھ کے والد سے دوستی تھی، کیونکہ دو سال کے وقفے کے لیے دونوں کا خاندان پڑوسی رہ چکا تھا۔ جب بم کانڈ کے بعد بھگت سنگھ کو جیل میں رکھا گیا اور تفتیش شروع ہوئی تو بھگت سنگھ کے ساتھ، سکھبیر اور راج گرو بھی جیل میں تھے۔ ان کو الگ الگ کوٹھریوں میں رکھا گیا تھا۔‘

ان کے مطابق: ’جیل انتظامیہ کی کوشش تھی کہ ان سب قیدیوں کو ایک دوسرے کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا جائے۔ یہ کہہ کر کہ دوسرا اپنے سابقہ بیان سے پلٹ رہا ہے وہ اصلیت بتا دے گا تو آپ بھی اصلیت بتائیں۔ یہ خبر جب بھگت سنگھ کے والد کو پہنچی تو خوشحال چند نے ’بھگت سنگھ تک خبر پہنچانے کے لیے‘ دو اخبار شائع کیے۔ ایک بھگت سنگھ کے والد کو دے کر انہیں جیل بھیجا گیا۔

’اس وقت بھگت سنگھ بھوک ہڑتال پر تھے۔ بھگت سنگھ کو عجیب لگا کہ ان کے والد کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اخبار میں بند کر کے جلیبی لے کر آئے ہیں جبکہ وہ بھوک ہڑتال پر ہیں۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب بھگت کو ان کے والد نے جلیبی دی تو انہوں نے پنجابی میں کہا کہ ’جلیبی پاویں ست نئیں لیکن اخبار دیکھ لیئیں (جلیبی ضرور نہ کھائیں لیکن اخبار دیکھ لیں)۔‘

یہ انہوں نے کہا کیونکہ اس سے زیادہ تو وہ بول نہیں سکتے تھے کیونکہ وہاں سخت پہرہ تھا تو اس وقت بھگت سنگھ نے اس وقت جلیبی کو رکھ لیا اور بعد میں جیلر نے بتایا کہ بھگت سنگھ نے جلیبی نہیں کھائی لیکن اخبار پڑھ لیا، جس میں لکھا تھا کہ کوئی کسی کے خلاف نہیں جارہا ہے، جس سے ان تینوں کو طاقت ملی۔

 نوینسوری نے اپنے شروعاتی دور کے بارے میں بتایا: ’سرکار نے ہمیں کناٹ پلیس میں ایک جگہ دی تھی، اس وقت تقسیم کے بعد شرانارتھیوں کے لیے الاٹمنٹس ہوتی تھیں۔ وہیں پر ہم نے اخبار بھی شروع کیا، وہیں پر رہائش بھی شروع کی۔ جھنڈے والان میں انڈین پرنٹنگ ورک ہوتا تھا، ان سے ہم اپنا اخبار ملاپ شائع کرواتے تھے، جب تک ہم نے اپنا خود کا پریس خرید لیا۔‘

نوین سوری کو اردو سے بہت محبت ہے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے اپنے ملک کے حکمرانوں سے ہمیشہ یہ رنج رہے گا کیونکہ پاکستان نے اردو کو اپنی قومی زبان بنا لیا تو ہم نے اس کو غیر کردیا، حالانکہ اردو کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انہوں نے پاکستان جانے کی کوشش کے بارے میں بتایا کہ ’میں پاکستان جانا چاہتا تھا اور یہ ان کی بہت خواہش تھی کیونکہ میں اپنے دادا جی کے اوپر ایک کتاب لکھ رہا تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ جگہ میں خود دیکھوں جہاں وہ رہے۔ یہ 1985 یا 1986 کی بات ہوگی، لیکن میرا ویزا مسترد کردیا گیا اور کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ تو وہ آخری اور پہلی دفعہ تھی جب میں نے پاکستان جانے کا سوچا تھا۔‘

ملاپ کے ہندو مذہب کے اخبار ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا: ’ہم نے اخبار کو مذہب نہیں دیا، روحانیت دی ہے۔ اگر ہمارے خیالات بی جے پی سے قریب ہیں تو اس کا مطلب بی جے پی والوں نے ہم سے لیا ہے کیونکہ ہمارا موقف ابھی کا نہیں ہے، ہمارا موقف 1947 سے ہے۔ ریڈرشپ میں کمی ہے، یقینی طور پر کمی ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ صرف مسلمان ہمیں پڑھتے ہیں۔ اسے پنجابی بھی پڑھتے ہیں۔ ہماری ریڈرشپ کینیڈا میں ہے، انگلینڈ میں بھی ہے اور تھائی لینڈ میں بھی ہے۔ کیونکہ تھائی لینڈ میں پرانے سردار آباد ہیں۔‘( بشکریہ  انڈیپنڈنٹ اردو)

Recommended