معروف فکشن اور ناول نگار مشرف عالم ذوقی کا انتقال، سرکردہ ادیبوں اور صحافیوں کا اظہار تعزیت
معروف فکشن نگار اور حالات کی عکاسی کرنے والے مشہور ناول نگار مشرف عالم ذوقی کا آج یہاں ایک پرائیویٹ اسپتال میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔وہ گزشتہ کئی دنوں سے اسپتال میں داخل تھے پسماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹا ہے ان کی عمر تقریباً 58سال تھی ان کی تدفین بعد نماز مغرب خوریجی کی قبرستان میں عمل میں آئے گی مسٹر ذوقی کو قلب کا عارضہ لاحق تھا لیکن وہ اس بار اس سے جانبر نہ ہوسکے۔
وہ عصر حاضر کے معتبرناول نگار تھے۔اپنی منفرد تخلیقات کے سبب وہ نمایاں شناخت رکھتے تھے۔ ان کی پیدائش 24نومبر 1963کو بہار کے ضلع آرہ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے مگدھ یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ قلم سے رشتہ نبھایا، انہوں نے دہلی میں سچ بالکل سچ میں بھی کام کیا اور اخیر میں راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر رہے۔ ویسے وہ ہمیشہ فری لانس صحافی رہے۔ وہ بنیادی طور پر دوردرشن کے لیے ٹی وی سیریل بناتے تھے اور قلم ہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
ان کی مطبوعات کی تعداد 50 سے زائد ہے۔ ان کے 14ناول اور افسانے کے آٹھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حالات حاضرہ میں ان کے لکھے گئے ناول ’مرگ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ بہت مشہور ہوا ہے اور عالمی سطح پر ان کی پذیرائی ہوئی ہے اور ادیبوں کے درمیان موضوع گفتگو بھی بنا۔
ان کے ناول اور افسانے بہت مشہور ہوئے، ان پر متعدد پی ایچ ڈی ہوچکی ہیں۔ ان کے ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘ ’بیان‘،’مسلمان‘، ’لے سانس بھی آہستہ‘، ’آتش رفتہ کا چراغ‘،.’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘، ’نالہ شب گیر‘، ’ذبح‘، ’مرگ انبوہ‘اور موضوع بحث’مردہ خانے میں عورت‘ شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی لکھے۔ دیگر اصناف بھی انہوں نے کتابیں لکھیں۔ 1992میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔
وہ بنیادی طور پر بہار کے آرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ بھی افسانہ نگار ہیں ان کا افسانے کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔گزشتہ دو ایک دنوں سے ان کی حالت سدھر رہی تھی۔ ان کے انتقال سے اردو دنیا میں زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے اور اردو دنیا ایک بہترین افسانہ نگار اور ناول نگار سے محروم ہوگئی ہے۔
مشرف عالم ذوقی متنوع اور مفنرد موضوعات پر قلم اٹھاتے تھے۔ وہ سماج کی بھرپور عکاسی کرتے تھے۔ان کے ناول میں مسائل کا ذکر ہے جس کو آج دیب و شاعر اٹھانے سے کتراتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناول میں مختلف موضوعات کا حاطہ کیا ہے۔ برصغیر کے اقلیتوں کے مسائل اور سماجی و انسانی سروکاروں کی مسٹر ذوقی نے اپنی تخلیقات میں بھرپور ترجمانی کی ہے۔ وہ موجودہ عہد کی گھٹن، صارفیت، سیاسی ظلم و زیادتی کو انہوں نے صرف اردو میں ہی تحریر نہیں کیا بلکہ دیگر زبانوں کے زبانوں میں بھی ان کو جگہ دی۔انہیں ان کی علمی ادبی، تخلیقی خدمات کے اعتراف میں معتدد ایوارڈ سے نواز ا گیا۔
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ،جے این یو،چیئرمین ورلڈ اردو ایسوسی ایشن اور سابق ڈائریکٹر ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی نے مشرف عالم ذوقی کے انتقال پر سخت رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے۔خواجہ اکرام نے کہا کہ مشرف عالم ذوقی کی جدائی سےمیرا دل بہت اداس ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ میرے بھائی مجھ سے جدا ہوگئے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ ایک اچھا دوست اور بھائی میں نے گھو دیا۔ اللہ مغفرت فرمائے،آمین
معروف نقاد حقانی القاسمی نے مشرف عالم ذوقی کے انتقال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہاکہ وہ میرے بہت قریبی تھے۔ ان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ قلم کے ساتھ انصاف کیا اور قلم کے وقار کو بحال رکھا۔ انہوں نے وہ متحرک ادیب اور باخبر انسان تھے۔ انہوں نے کہاکہ مسٹر ذوقی سے ان کی کتابوں سے حوالے سے اختلافات کیا جاسکتا ہے لیکن ان کو اور ان کی کتابوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر ذوقی کے انتقال کو ادب اور صحافت کے لیے ایک بہت بڑا خلا قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ جس موضوع پر بھی لکھا بے باکی سے لکھا۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے مسٹر ذوقی کے انتقال کو اردو زبان و ادب، فکشن اور ناول کے لیے زبردست خلا قرار دیا اور کہاکہ ان کے ناول معاشرے کی تلخ حقیقت بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے جس بہادری اور بے باکی کے ساتھ معاشرتی مسائل کو جگہ دی ہے یہ ان کی ہی بس کی بات ہے۔
عالمی تحریک اردو دہلی کے سربراہ اور حلقہ فکر وفن کے صدر انجینئر فیروز مظفر نے مشرف عالم زوقی کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا مشرف عالم ذوقی میں دلیری اور کچھ اور عادتیں ان کے والد کی طرح تھیں اردو اور ہندی میں یکساں مقبول مسٹر ذوقی کے ناول ہم نے پڑھے تھے وہ راشٹر سہارا کے اردو کے ہیڈ بھی بنائے گے تو انھوں نے مرے ہوے اخبار میں جان ڈالنے کی کوشش کی اور وہ اس کے لیے میرے والد سے ہی نہیں کبھی کبھی مجھ سے بھی مشورہ کرتے تھے۔ والد صاحب کے بعد دہلی میں ذوقی صاحب ہی ایک ایسے ادیب تھے جو سچ بول لیا کرتے تھے ورنہ زیادہ تر ادیب اور پروفیسر جس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اس سے اردو ادب زوال کی طرف گامزن ہے۔