محمد مجاہد حسین رضوی مصباحی
استاذ وصدر دارالافتا دارالعلوم غریب نواز ،الٰہ آباد
﷽
بات آج سے ٤۵ سال پہلے کی ہے جب راقم الحروف ۱۹۷۷ء میں ازہر ہند الجامعۃ الاشرفیہ میں درجۂ سادسہ کا متعلم تھا اور آج کے سراج الفقہا اور جامعہ کے سابق صدرالمدرسین وصدر دارالافتا حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین صاحب قبلہ درجۂ سابعہ کے متعلم تھے،اس زمانے میں جسے کسی فن میں تخصص کرنا ہوتا تھا تو درجۂ سابعہ کے بعد تخصص کا دوسالہ نصاب مکمل کرکے دورۂ حدیث میں واپس آتا تھا اور پھر اس کی فراغت ہوتی تھی۔
مفتی صاحب قبلہ موصوف نے درجۂ سابعہ مکمل کرکے تخصص فی الفقہ میں داخلہ لیا تو میں درجۂ سابعہ میں پہنچ گیا اور جب ۱۹۷۹ ء میں آپ کے تخصص کا دوسرا اور آخری سال آیا تو میں دورۂ حدیث میں پہنچ گیا اور سیدی سرکار حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ کے تیسرے عرس پاک کے موقعے پر یکم جمادیٰ الآخرہ ۱۳۹۹ھ مطابق ۲۸ اپریل ۱۹۷۹ء کو میری فراغت ہوگئی، جب کہ مفتی صاحب قبلہ میرے ٹھیک ایک سال بعد ۱۹۸۰ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔اور اپنےشاندار تعلیمی رکارڈ کی بنیاد پر اپنے مادر علمی میں استاذ مقرر کیے گئے۔قریب چالیس سال کے طویل عرصۂ تدریس میں آپ نے ہزاروں علما وفقہا پر مشتمل ایک بڑی جماعت کھڑی کی جوآج ملک اور بیرون ملک میں نمایاں دینی خدمات انجام دے رہی ہے،لیکن اسی کے ساتھ ساتھ کئی ایک فروعی مسائل میں وہ اپنی جماعت کے بہت سارےعلماے اکابر اور قابل ذکر علماے اصاغر کی نظر میں متنازع فیہ بھی بن گئے اورلگاتار بنتے چلے جارہے ہیں،مگرمجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ان کے خلاف بعض لوگوں نے اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے جن الفاظ اور جن القاب کا استعمال کیا ہے وہ قطعاً اہل علم کے شایان شان نہیں ہیں ۔ اگر کسی کو کسی بھی فروعی معاملے میں کسی کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہو تو دلائل کی روشنی اپنے مقابل کا رد کرنا چاہیے اورطعن و تشنیع سےکامل گریز کرنا چاہیے۔
١٦ دسمبر۲۰۲۲ء کے بعد سوشل میڈیا کے دریاے ناپیدا کنارمیں گانوں کا ایک زبردست طوفان آیا ہوا ہے،اس طوفان کی زد میں ایک طرف حضرت سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین صاحب رضوی زید مجدہم اینڈ کمپنی کی کشتیاں ہیں اور دوسری طرف اہل سنت و جماعت کے باقی ارباب قلم کی ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ طوفان کب تھمے گا اور کب یہ دونوں گروہ ساحل مراد پر پہنچیں گے،ہر بار کی طرح اس بار بھی ہماری جماعت کی بزرگ اور کلیدی شخصیتیں اس سلسلے میں “السلامۃ فی السکوت “کے فارمولے پر عمل کر رہی ہیں،اور ایسا اس لیے کررہی ہیں کہ انھیں کلیدی شخصیت تسلیم کرنے سے ہردوگروہ کے بہت سارے لوگ پس و پیش میں مبتلا ہیں، وہ انھیں “مَابِہ النِّزَاعْ “امور میں فیصل نہیں اپنا فریق سمجھ بیٹھے ہیں ،پھر وہ کچھ کریں بھی تو کیا کریں اور کیوں کریں؟
اصل معاملہ کیا ہے ؟
عروس البلاد ممبئی عظمیٰ کے آزاد میدان میں سنی دعوت اسلامی کے زیر انتظام ہرسال ایک اجتماع ہوتا ہے،منتظمین اسی میدان کو “وادیِ نور” کے عارضی نام سے جانتے ہیں۔جس کا ایک اہم پروگرام دینی سوال وجواب کا ہوتا ہے،شرکاے اجتماع کی طرف سے سوالات ہوتے ہیں اورحضرت سراج الفقہا محمد نظام الدین صاحب قبلہ رضوی زید مجدہم ان سوالات کا جواب دیتے ہیں،اس سال ان سے ایک خاتون کی طرف سے سوال ہوا کہ” میرے شوہر حرام گانے سنتے ہیں،کیا اس کی وجہ سے ہمارے ایمان پر اثر پڑتا ہے؟کیا اس سے کفر ہوتا ہے؟کیا اس سے ہمارا نکاح ٹوٹتا ہے؟ ” اس کے جواب میں مفتی صاحب موصوف نے جو جواب دیا ہے وہ من و عن اس طرح ہے:
وہ گانا کتنا زیادہ اثر کرے گا،آپ پر؟ آپ کے نکاح پر؟یہ ہم بعد میں بتائیں گے،پہلے یہ سمجھیے کہ آ پ نے جو سوال کیا کہ وہ گانا کفر ہے، حرام ہے،گناہ ہے، کیا ہے؟ تو یہ گانے کے مضمون پر موقوف ہے،گانے کا مضمون کیا ہے؟کبھی کبھی گانے کا مضمون کفری ہوتا ہے تو وہ کفر ہوجائے گا، اس کو پڑھنا بھی کفر اور اس کو پسند کرنا یہ بھی کفر، کبھی کبھی گانے کا مضمون حرام اور گناہ ہوتا ہے تو اس کو پڑھنا بھی حرام و گناہ اور اس کو پسندیدگی کے ساتھ سننا بھی حرام و گناہ،اور کبھی کبھی گانے کا مضمون صرف دل کی تفریح اور بہلاوے کے لیے ہوتا ہے،مباح ہوتا ہے ، اس میں نہ تو کفروشرک کا کوئی مضمون ہوتا ہے اورنہ ہی حرام وگناہ کاکوئی مضمون ہوتا ہے تو اس کو پڑھنا اور سننا یہ مباح ہے، یہ تین درجے ہیں تو اگر وہ گانا ایسا ہے کہ اس کا مضمون مباح ہو تواس کا سننا مباح ہے اس سے آپ کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا”سائل نے جواب مذکور کے بعد دوبارہ سوال کیا کہ “اچھا حضرت! یہ “مباح” نہیں سمجھ میں آیا مجھے ” اس سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے فرمایا “اچھا! مباح کا مطلب ؟جس کا سننا جائزو درست ہو” اس کے بعد پھر سائل نے سہ بارہ دریافت کیا کہ” کوئی حرج نہیں ہے اس میں؟” تو آپ نے جواب دیا “اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔”
سوال صرف اتنا تھا کہ” میرے شوہر حرام گانے سنتے ہیں،کیا اس کی وجہ سے ہمارے ایمان پر اثر پڑتا ہے؟کیا اس سے کفر ہوتا ہے؟یا اس سے ہمارا نکاح ٹوٹتا ہے؟” جواب فقط اتنا تھا کہ حرام گانا سننا حرام ہے آپ کے شوہر گنہ گارہیں انھیں توبہ کرنی چاہیے لیکن اس سے نہ تو آپ کے ایمان پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی کفر ہوگا ،لیکن جواب میں مفتی صاحب نے مضامین کی رو سے گانوں کی تقسیم کرکے وہ تمام گانے جائز قرار دے دیے جن کے مضامین کفر یا حرام پر مشتمل نہ ہوں اور انھیں ذرہ برابر اس بات کا خیال نہیں آیا کہ دور حاضر میں جب” گانے” کا لفظ بولا جاتا ہے تو کسی کا ذہن حمد،نعت،منقبت یا کسی اور گانے کی طرف نہیں بلکہ فلمی گانوں ہی کی طرف جاتاہے، حمد،نعت یامنقبت پڑھنے کوکوئی گانا گانا نہیں کہتا،چند ان پڑھ لوگ اگر کہتے بھی ہوں تو حکم شرع میں ان کا کیا اعتبار!ایسی صورت میں معترضین کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مفتی صاحب نے وہ تمام فلمی گانے جائز قرار دے دیے جن کے مضامین کفر یا حرام نہیں ہیں۔بعض لوگوں نے تو فلمی گانوں کے بہت سارے اشعار بھی لکھ دیے اور لکھا کہ یہ سب گانے مفتی صاحب قبلہ کی نظر میں جائز ہیں۔سوال میں تو گانے کا لفظ ایک ہی بار آیا تھا مگر مفتی صاحب قبلہ نے تو گانوں کی جھڑی ہی لگادی اور جواب میں آٹھ بار “گانے” کا ذکر کردیا۔
فقہی احکام کی بنیاد چوں کہ غالب حالات پر ہوتی ہے اس لیے عرف میں جب گانوں سے ذہن کا تبادرفلمی گانوں ہی کی طرف ہوتا ہے تو ایسی صورت میں یہ کہنا کہ “گانے کا مضمون اگر مباح ہو تو اس کا سننا مباح ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔”کس طرح درست ہوسکتا ہے؟
مفتی صاحب قبلہ کے بہت سارے معتقدین کی طرف سے اس کی صفائی میں بہت ساری باتیں کہی گئیں مجھے ان سے مطلب نہیں، حیرت تو تب ہوئی جب خود مفتی صاحب قبلہ موصوف نے ۱۲صفحات پر مشتمل اپنی وضاحتی تحریر میں باضابطہ فلموں کے نام کے ساتھ فلمی گانوں کی ایک لمبی فہرست بھی پیش فرمادی ہے اورکھلا اقرار کرلیا کہ جن گانوں کے جواز کا میں نے قول کیا ہے وہ مباح مضامین پر مشتمل فلمی گانے ہی ہیں ، اور اس سے کہیں زیادہ حیرت ناک تو وضاحتی تحریر کی یہ سرخی ہے کہ :
“میرے فتاویٰ اور جواب، فتاویٰ رضویہ سے ماخوذ ہوتے ہیں”
:زیادہ حیرت ناک اس لیے کہ پڑھنے والوں نے فتاویٰ رضویہ میں یہ پڑھا ہے۔” سماع مجرد بے مزامیر، اس کی چند صورتیں ہیں
رنڈیوں ،ڈومنیوں ،محل فتنہ امردوں کاگانا۔
جو چیز گائی جائے معصیت پرمشتمل ہو ،مثلاًفحش یاکذب یا کسی مسلمان یا ذمی کی ہجو یا شراب وزنا وغیرہ فسقیات کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ امردکی بالتعیین تعریفِ حسن یا کسی معین عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اس کے اقارب، احبا کو حیا وعار آئے ۔
بہ طور لہو لعب سنا جائے اگرچہ اس میں کوئی ذکر مذموم نہ ہو۔
تینوں صورتیں ممنوع ہیں۔الاَخِیرَتَانِ ذَاتاً وَالْاُوْلیٰ ذَریعَۃً حَقیقَۃً ایسا ہی گانالہو الحدیث ہے اس کی تحریم میں اور کچھ نہ ہو تو صرف حدیث “کُلُّ لَعِبِ ابْنِ اٰدَمَ حَرَامٌ اِلَّا ثَلٰثَۃٌ” کافی ہے ۔
ان کے علاوہ وہ گانا،جس میں نہ مزامیر ہوں نہ گانے والے محل فتنہ ،نہ لہو ولعب مقصود نہ کوئی ناجائز کلام بلکہ سادے عاشقانہ گیت ، غزلیں ،ذکر باغ وبہار وخط وخال ورخ وزلف وحسن وعشق وہجر ووصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امور عشق وتغزل پرمشتمل سنے جائیں تو فساق وفجار واہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا۔
کیاسرکار اعلیٰ حضرت کےاس ارشاد کا یہ صاف اور واضح مفہوم نہیں ہے کہ وہ گانے
جس میں مزامیر بھی نہ ہوں۔
گانے والے محل فتنہ بھی نہ ہوں۔
گانے سے مقصود لہو لعب بھی نہ ہو۔
گانے کا مضمون بھی ناجائز نہ ہو بلکہ جائز ہو۔
سادے عاشقانہ گیت ہوں،غزلیں ہوں۔
گانے ذکر باغ وبہار وخط وخال ورخ وزلف وحسن وعشق وہجر ووصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امور عشق وتغزل پر مشتمل ہوں۔
اس کے باوجود”ایسے گانوں سے بھی فساق وفجار واہل شہواتِ دنیہ کو روکا جائے گا” لیکن آپ نے علی الاطلاق کہہ دیا کہ” گانے کا مضمون اگر مباح ہو تو اس کا سننا مباح ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔” پھر ہم کیسے مان لیں کہ آپ کا یہ فتویٰ اور یہ جواب، فتاویٰ رضویہ سے ماخوذ ہے ؟
اس طرح کے گانوں سےروکنے کی جو وجہ سرکار اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے”وَذٰلِکَ مِنْ بَابِ الْاِحْتِیَاطِ الْقَاطِعِ وَنُصْحِ النَّاصِحِ وَسَدِّ الذَّرَائِعِ الْمَخْصُوْص بِہ ھٰذَا الشَّرْعُ الْبَارِعُ وَالدِّیْنُ الفَاِرعُ۔” اس بنیاد پر سرکار اعلیٰ حضرت کی روش پر چلتے ہوئے اورفتاویٰ رضویہ کی پیروی کرتے ہوئے،کیا آپ کو بھی جواب میں عامۃ المسلمین کی خیر خواہی کے پیش نظر احتیاطاً علی الاطلاق ان تمام اشعار سے نہیں روکنا چاہیے تھا جنھیں عرف عام میں گا نا کہا جاتا ہے ؟ تاکہ مفاسد کے ذرائع کا سد باب ہو، جو اس عظیم الشان دین اور کامل و مکمل شریعت کا اختصاص اور اس کا طرۂ امتیاز ہے ؟
اسی فتاویٰ رضویہ میں آگے کی عبارت بھی یہاں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، آ پ فرماتے ہیں: ” یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں گانا کہتے ہیں اور اگر اشعار حمد و نعت ومنقبت ووعظ وپند وذکر آخرت بوڑھے یا جوان مرد خوش الحانی سے پڑھیں اوربہ نیتِ نیک سنے جائیں کہ اسے عرف میں گانا نہیں بلکہ پڑھنا کہتے ہیں تو اس کے منع پر شرع سے اصلاً دلیل نہیں، حضور پر نور سید عالمﷺ کا حسا ن بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے خاص مسجدِ اقدس میں منبر رکھنا اوران کا اس پر کھڑے ہو کر نعتِ اقدس سنانا اور حضور اقدسﷺ وصحابۂ کرام کا استماع فرمانا خود حدیثِ صحیح بخاری شریف سے واضح اور عرب کے رسم حدی زمانۂ صحابہ وتابعین بلکہ عہدِ اقدس رسالت میں رائج رہنا خوش الحانی رجال کے جواز پر دلیل لائح ،انجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حدی پر حضور والا صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیہ نے انکار نہ فرمایا بلکہ بلحاظ عورات “رُوَيْدًا يَا أَنْجَشَةُ لاَ تَكْسِرِ الْقَوَارِير” ارشاد ہواکہ ان کی آواز دلکش ودل نواز تھی عورتیں نرم ونازک شیشیاں ہیں جنھیں تھوڑی ٹھیس بہت ہوتی ہے ،غرض مدارکار تحقق وتوقع فتنہ ہے ، جہاں فتنہ ثابت وہاں حکم حرمت ،جہاں توقع واندیشہ وہاں بنظر سد ذریعہ حکم ممانعت ،جہاں نہ یہ نہ وہ ،نہ یہ نہ وہ بلکہ بہ نیت محمود استحباب موجود ۔بحمداللہ تعالیٰ یہ چند سطروں میں تحقیق نفیس ہے کہ ان شاء اللہ العزیز حق اس سے متجاوز نہیں،نسأل اللہ سوی الصراط من دون تفریط والافراط ،واللہ اعلم بالصواب ۔”
اس طویل عبارت میں حمدو نعت ومنقبت ووعظ وپند وذکر آخرت پر مشتمل اشعار سے متعلق اعلیٰ حضرت کا یہ ارشاد کہ “اسے عرف میں گانا نہیں بلکہ پڑھنا کہتے ہیں” نیز یہ ارشاد کہ ” غرض مدارکار تحقق وتوقع فتنہ ہے ، جہاں فتنہ ثابت وہاں حکم حرمت ،جہاں توقع واندیشہ وہاں بنظر سد ذریعہ حکم ممانعت ” انتہائی اہم ، قابل غور اور اس کا متقاضی ہے کہ دور حاضر میں مطلقاً فلمی گانوں سے عامۃ المسلمین کو روکا جائے۔
اور اسی بنیاد پر اس فتاویٰ عالمگیری میں جو بارہویں صدی ہجری تک موجود تمام فقہی کتابوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے لکھا ہے کہ”اخْتَلَفُوا فِي التَّغَنِّي الْمُجَرَّدِ قَالَ بَعْضُهُمْ إنَّهُ حَرَامٌ مُطْلَقًا وَالِاسْتِمَاعُ إلَيْهِ مَعْصِيَةٌ وَهُوَ اخْتِيَارُ شَيْخِ الْإِسْلَامِ وَلَوْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إثْمَ عَلَيْهِ ” محض گانے{یعنی بغیر مزامیر وآلاتِ موسیقی} میں فقہا کے نقطہ ہائے نظر مختلف ہیں،بعض کا قول ہے کہ گانا مطلقاً حرام اور اسے بہ قصد سننا گناہ ہے اور یہی نقطۂ نظرحضرت شیخ الاسلام کا قول مختار ہے، ہاں اگر کسی کو اچانک سنائی دے دے تو سننے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
اگر فتاویٰ عالم گیری کے مرتب مفتیانِ کرام فلمی گانوں کے اس فساد انگیز اور حیا سوزعہد میں ہوتے تومیں سمجھتا ہوں کہ وہ حضرت شیخ الاسلام کے اسی قول سے متعلق ارشاد فرمادیتے کہ وَھُوَ المُخْتارُ للفَتویٰ فِی زمَانِنَا ھٰذا ۔
اب ذرا گانے کے لفظ سے اپنے بزرگوں کے احترازو احتیاط کی کیفیت ملاحظہ کیجیے ،بہار شریعت میں فتاویٰ عالم گیری کے حوالے سے دو مسائل بیان کیے گئے ہیں ، اس کی اصل عبارت یہ ہے:
“وَإِنْشَادُ مَا هُوَ مُبَاحٌ مِنْ الْأَشْعَارِ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِذَا كَانَ فِي الشِّعْرِ صِفَةُ الْمَرْأَةِ إنْ كَانَتْ امْرَأَةً بِعَيْنِهَا وَهِيَ حَيَّةٌ يُكْرَهُ وَإِنْ كَانَتْ مَيِّتَةً لَا يُكْرَ هُ وَإِنْ كَانَتْ امْرَأَةً مُرْسَلَةً لَا يُكْرَهُ وَفِي النَّوَازِلِ قِرَاءَةُ شِعْرِ الْأَدِيبِ إذَا كَانَ فِيهِ ذِكْرُ الْفِسْقِ وَالْخَمْرِ وَالْغُلَامِ يُكْرَهُ وَالِاعْتِمَادُ فِي الْغُلَامِ عَلَى مَا ذَكَرْنَا فِي الْمَرْأَةِ”
حالات اورعہد حاضر کے تقاضوں کےعین مطابق اس عبارت کی جوترجمانی حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے فرمائی ہے وہ قابل صد ستائش ہے اور اس بات کا ایک پختہ ثبوت ہے کہ بارگاہِ رضوی کے حاضرباشوں میں سب سے زیادہ تفقہ آپ کے اندر کن بنیادوں پر پایا جاتا تھا اور ہم سب کے لیے ہدایت ہے کہ عامۃ المسلمین کو منہیات کے قریب بھی پھٹکنے سے کیسے روکا جاتا ہے،آپ لکھتے ہیں:
“جو اشعار مباح ہوں ان کے پڑھنے میں حرج نہیں، اشعار میں اگر کسی مخصوص عورت کے اوصاف کا ذکر ہواور وہ زندہ ہو تو پڑھنا مکروہ ہے اور مرچکی ہو یا خاص عورت کا ذکر نہ ہو تو پڑھنا جائز ہے۔ شعر میں لڑکے کا ذکر ہو تو وہی حکم ہے جو عورت کے متعلق اشعار کا ہے۔
اشعار کے پڑھنے سے اگر یہ مقصود ہو کہ ان کے ذریعے سے تفسیر و حدیث میں مدد ملے یعنی عرب کے محاورات اور اسلوب کلام پر مطلع ہو، جیسا کہ شعراے جاہلیت کے کلام سے استدلال کیا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔”
دیکھ رہے ہیں آپ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے یہ مسئلہ بیان نہیں کیا کہ جن گانوں کے مضامین مباح ہوں ان کا گانا جائز ہے بلکہ فرمایا “جو اشعار مباح ہوں ان کے پڑھنے میں حرج نہیں۔”
اے کاش اگر مفتی صاحب قبلہ نے بھی مباح مضامین پر مشتمل اشعار کے حکم سے متعلق یہی تعبیر اپنائی ہوتی اور گانا گانے کی بات نہ کرکے مباح مضامین پر مشتمل اشعار پڑھنے کی بات کی ہوتی تو سوشل میڈیا پر انھیں نازیبا کلمات طعنہ و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا گیا ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں اب بھی اگر مفتی صاحب قبلہ اپنے گانوں سے متعلق اپنے حکم کی تعبیر بدل دیں تو یہ معاملہ رفع دفع ہوجائے گا۔
لیکن شاید وہ ایسا کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔ لیٹر پیڈ کے ۱۲ صفحات پر مشتمل اپنے وضاحتی بیان میں وہ لکھتے ہیں :
“آپ نے سوال کیا ہے: فلمی گانے سننا جائز ہے یا ناجائز؟تو جو ابا ًعرض ہے کہ ناجائز ہے، اس سے احتراز کیا جائے، کیوں کہ یہ گانے مزامیر کے ساتھ گائے جاتے ہیں یا ان کےساتھ کوئی اور ممنوع شرعی پایا جاتا ہے، گانے کا مضمون قبیح ہویا مزامیر اور باجے کے ساتھ گایا جائےیا لہو و لعب کے طور پر ہویا عورتیں گائیں تو یہ سب ممنوع و ناجائز و گناہ ہیں ، کہ یہ گانے دل میں نفاق پیدا کرتے ہیں۔جب ہمارے علما وفقہا مطلقا ًممانعت فرماتے ہیں تو ان کی مراد اسی طرح کے گانے ہوتے ہیں اور اس کے لیے قسمیں بیان کرنے کی حاجت نہیں ہوتی۔ واللہ تعالی اعلم۔”
مفتی صاحب قبلہ کو گانوں سے متعلق ہمارے علما وفقہا کی مطلقاً ممانعت کاصحیح محمل بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اسی دارالافتا کے سابق برکاتی مفتی اور شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق صاحب قبلہ امجدی علیہ الرحمہ نے فلمی گانے سننے سے متعلق ایک سوا ل کے جواب میں مطلقاً ارشاد فرمایا ہے کہ” فلمی گانے سننا حرام و گناہ ہے۔” کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ فلمی گانوں کی تقسیم اور اقسام کے الگ احکام بیان کرنے سے مفاسد کے دروازے کھل جائیں گے۔
اور اسی بنیاد پر فتاویٰ رضویہ میں آپ کے ذکر کردہ تمام وجوہِ ممانعت کے عدم وجود کے باوجود فساق وفجار واہل شہوات دنیہ کو گانے سے روکے جانے کی بات کی گئی ہے۔ ایک بار پھر پڑھ لیا جائے:
“ان کے علاوہ وہ گانا،جس میں نہ مزامیر ہوں نہ گانے والے محل فتنہ ،نہ لہو ولعب مقصود نہ کوئی ناجائز کلام بلکہ سادے عاشقانہ گیت ، غزلیں ،ذکر باغ وبہار وخط وخال ورخ وزلف وحسن وعشق وہجر ووصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امور عشق وتغزل پرمشتمل سنے جائیں تو فساق وفجار واہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا۔”
حاصل کلام یہ ہے کہ مفتی صاحب قبلہ موصوف سے گانوں سے متعلق سائل کے جواب کی تعبیر میں چوک ہوئی ہے،جس کا انھیں اعتراف کرکے امت کو فتنہ و فساد اور اختلاف و انتشار سے بچانا چاہیے۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُؕ-وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ