Urdu News

مجروح سلطانپوری اور فلمی نغمے

برِصغیر کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر مجروح سلطانپوری

اعجاز زیڈ ایچ

برِصغیر کے ممتاز ترین ترقی پسند شاعر،ممتازفلم نغمہ نگاراوراردو غزل کا البیلا شاعرمجروحؔ سلطان پوری صاحب کا یومِ وفات ہے۔

اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر مجروحؔ سلطان پوری کا اصل  نام اسرار الحسن خاں تھا ۔ مجروحؔ تخلص کرتے تھے ۔ مجروحؔ ، یکم؍اکتوبر ١٩١٩ کو اترپردیش کے ضلع سلطان پور میں قصبہ کجہڑی میں پیدا ہوئے۔ مجروحؔ کے والد سرکاری ملازم تھے ۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے اس لئے خاصے لاڈ پیار سے پالے گئے ۔

مجروح کے والد خلافت تحریک سے بہت متاثر تھے ۔ اس لئے انہوں نے انگریز اور انگریزی زبان کی دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے ۔ چناچہ انہیں ایک مقامی مکتب میں داخل کیا گیا جہاں انہوں نے عربی فارسی اور اردو پڑھی ۔

 درس نظامی کی تعلیم بیچ میں چھوڑ کر مجروح نے لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا ۔ ۱۹۳۸ میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کرلیا ۔ یہاں مجروح کو ایک خوبصورت لڑکی سے عشق ہوگیا تھا اور یہی عشق ٹانڈہ سے مجروح کی واپسی کی سبب بنا،وہ لوٹ کر سلطان پور چلے آئے ۔

 اس عشق کے زخموں نے مجروح کی شاعرانہ طبیعت میں اور اچھال پیدا کر دیا ۔ مجروح شاعری تو پہلے ہی شروع کر چکے تھے لیکن اب باقاعدہ شعر کہنے لگے اور مشاعروں میں جانے لگے ۔ مشاعروں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر مجروح نے شاعری اور مشاعروں ہی کو اپنا ذریعۂ روزگار بنا لیا ۔

 ان دنوں میں مجروحؔ کو جگرمرادآبادی اور رشید احمد صدیقی سے شرف نیاز حاصل رہا اور انہیں کے مشورے سے مجروح نے اردو کی کلاسیکی شاعری کا خوب مطالعہ کیا ۔

۱۹۴۵ میں مجروح جگرمرادآبادی کے ساتھ ممبئی میں مشاعرہ پڑھنے گئے ۔ مشاعرے میں جب مجروح نے اپنا کلام سنایا تو فلم ڈاٗریکٹر کاردار مجروحؔ  کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان دنوں کاردار ’’ شاہجہاں‘‘ کےنام سے ایک فلم بنارہے تھے ۔

 نوشاد میوزک ڈائریکٹر تھے ۔ کاردار نے مجروح کو پانچ ہزار روپئے مہینے کی ملازمت کی پیشکش کی ، مجروح نے فورا منظور کرلیا ۔ انہوں نے شاہجہاں فلم کے گانے لکھے ، نوشاد نے موسیقی دی ۔ مجروح کے یہ گانے بہت مقبول ہوئے ۔

 اس کے بعد مجروح ممبئی ہی میں مقیم ہوگئے اور فلموں کیلئے گانے لکھتے رہے ۔ مجروح نے اپنی فلمی زندگی کے پچپن برسوں میں تقریبا ساڑھے تین سو گانے اردو میں لکھے اور تین بھوجپوری میں ۔ مجروح کے لکھے ہوئے نغموں کا جادو سر چڑھ کر بولا ، یہ گانے آج بھی اسی دلچسپی کے ساتھ سنے جاتے ہیں ۔

مجروح ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اس کے سرگرم رکن تھے مزدوروں کے حق میں شعر کہنے کے جرم میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا ، وہ ایک سال تک جیل میں رہے ۔

مجروح کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ فلمی دنیا اور ترقی پسند تحریک سے سرگرم وابستگی ان کے تخلیقی وجود کو اپنے اشاروں پر نہ چلا سکی ۔ انہوں نے غزل کی صنف میں شاعری کی جس کے بعض ترقی پسند سخت مخالف تھے کہ اس میں صرف حسن و عشق کی باتیں ہوتی ہیں ۔

 اور ساتھ ہی انہوں نے غزل کے کلاسیکی اور روایتی لہجے کو برقرار رکھ کر اس میں نئے امکانات تلاش کئے ۔ اپنی ان خصوصیات کی بنا پر مجروح تمام ترقی پسند شاعروں میں بہت نمایاں ہیں ۔

اردو غزل کا البیلا شاعر ٢٤؍مئی ٢٠٠٠ کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

ممتاز نغمہ نگار مجروحؔ سلطان پوری صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

آ ہی جائے گی  سحرِ مطلعِ امکاں تو کھلا

نہ سہی بابِ قفس روزنِ زنداں تو کھلا

اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم

اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم

اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے

جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم

بڑھائی مے جو محبت سے آج ساقی نے

یہ کانپے ہاتھ کہ ساغر بھی ہم اٹھا نہ سکے

ہم ہیں کعبہ ہم ہیں بت خانہ ہمیں ہیں کائنات

ہو سکے تو خود کو بھی اک بار سجدا کیجیے

کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا

ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

غمِ حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ

تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں

مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے

رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ

مجھے یہ فکر سب کی پیاس اپنی پیاس ہے ساقی

تجھے یہ ضد کہ خالی ہے مرا پیمانہ برسوں سے

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی

کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا

زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروحؔ

ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے

جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے

تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

Recommended