Urdu News

شہیدِ انسانیت شہباز بھٹی

آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

لائل پور کی زمین زرخیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب جیمز براڈ ووڈ لائل نے ریگستان اور جنگل جیسی اس زمین پر محنت کی تو یہ سرزمین دنیا کے نقشے پر پاکستان کا مانچسٹر بن کر اُبھری۔

 اس زرخیز سر زمین نے بہت سے ہیرے پیدا کئے ہیں جن میں جیمز براڈ ووڈ لائل ،سر کنگا رام جیسے رام صفت بھی ہیں. ناز خیالوی جیسے ادبی مہتاب بھی ہیں۔

  بھگت سنگھ جیسے روشن آفتاب بھی ہیں۔ لائل پور کی دھرتی  بھگت سنگھ جیسی سر فروش شخصیت پیدا کرکے بانجھ نہیں ہوئی بلکہ آج بھی انقلابی مقصد کے لیے اپنا خون پیش کرنے والوں کو جنم دینے میں آگے ہے۔

“I will prefer to die on my principles and for justice to my community rather to compromise on these threats”

یہ الفاظ جب سماعتوں میں پڑتے ہیں تو یاد آتی ہے اُس شہید انسانیت کی جس نے انسانیت کے لئے جان کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ شہباز بھٹی اقلیتی برادری کا مسیحا۔

 شہباز بھٹی نے اسی لائل پور کی دھرتی پر جنم لیا. 9 ستمبر 1968 عیسوی کو  شہباز بھٹی نے   جنم لیا۔ شہباز بھٹی کے والد جیکب بھٹی برطانوی سامراج کی فوج میں آرمی آفیسر تھے۔ بعدازاں مدرب بھی رہے۔ اتالیقی کے بعد خوش پور کے گرجا گھروں کی تنظیم کے سربراہ منتخب ہوئے۔

شہباز بھٹی بھی والد کی طرح ایک انقلابی انسان نکلے۔ دورِ طالبعلمی میں ہی متحرک ہو گئے۔ 1985 عیسوی میں پاکستان کرسچین لبریشن فرنٹ کا قیام عمل میں لایا۔

جس کو بطور ہیڈ لیڈ کرتے رہے۔ 2002 عیسوی میں آل پاکستان مینارٹیز الائنس بنایا۔ اقلیتی وکلاء کے وفد کے چیئرمین کے طور پر آگے بڑھے اور جنرل مشرف سے ملے۔2002 عیسوی میں ہی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 2008 عیسوی تک سیاست سے دور رہے۔ 2 نومبر 2008 عیسوی کو بطور وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور کے حلف اٹھایا۔

یہ وزارت پہلی مرتبہ قیام عمل میں لائی گئی تھی اور یوں شہباز بھٹی بھی اس وزارت کا قلمدان سنبھالنے والے پہلے فرد تھے۔آپ نے اپنی پہلی تقریر میں اس امر کا برملا اظہار کیا کہ میں نے اپنی ساری زندگی بنیادی حقوق سے محروم اقلیتی برادری کے افراد کے لیے جنگ لڑی ہے۔

 میں نے یہ وزارت شوشل جسٹس، انسانی حقوق کی برابری اور پسے ہوئے اقلیتی طبقہ کے مفاد کے لیے قبول کی ہے۔ میں ایسے افراد جو اس مملکت میں مایوسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے لیے امید بننا چاہتا ہوں۔

میرا ارادہ توہینِ مذہب کے قانون میں ترمیم کرنے کا ہے. آپ اس حساس معاملے پر عزم صمیم رکھتے ہیں اور ہر حال میں اقلیتی برادری کے حقوق کی جنگ لڑنا چاہتے تھے۔

اپنی وفاقی وزارت کے دور میں میں آپ نے مذہبی اقلیتوں کی بہتری کے لئے بہت سے اقدامات کئے۔جن میں نفرت آمیز تقاریر پر پابندی، بین المذاہب میں ہم آہنگی کی قومی تحریک، نفرت آمیز مواد کی تشہیر پر پابندی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ نصابی کتب میں متناسب مذاہب کے تعارف کے حوالے سے مضمون اور اقلیتی کوٹہ کی دریافت شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں ریزرو سیٹوں میں اقلیتی ممبران کے لیے چار سیٹیں مختص کروانے کا بہترین قدم شامل ہے۔

اس کے توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کے سلسلے میں آپ میدانِ عمل میں آئے. آپ نے بطور وفد مذہبی جماعتوں سے لے کر باقی تمام جماعتوں کے پاس گئے اور اس میں ترمیم کے لئے مکمل حد تک کوشاں رہے۔

 مگر گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے کی شہادت کے بعد تحریک طالبان کی طرف سے آپ کو دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئی۔ اور آپ کو ڈرایا دھمکانا جانے لگا مگر آپ ثابت قدم رہے اور اپنے موقف پر ڈٹے۔ بلکہ اپنے آخری ریکارڈ شدہ بیان میں کھُل کر اظہار کیا کہ آپ مسیحا بن کر مرنے کو تیار ہیں اور انسانیت کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں۔

یہ وہ وقت تھا جب فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے گورنر پنجاب کے قتل پر اپنا موقف دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے اس ملک میں زندہ رہنا ہے. اِن کے حالات کے باوجود شہباز بھٹی نے فیض کے شعر پر عمل کیا۔

جس دھج سے گیا کوئی مقتل میں وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

آخر فیض صاحب کی وہ نظم جو سلمان تاثیر نے ایک سوال کے جواب میں پڑھی تھی جب ان کو قتل ہونے سے ڈرنے کے متعلق پوچھا تھا۔

آج بازار میں پابجولاں چلو

چشمِ نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو

دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی

تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی

صبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو

Recommended