پروفیسر محسن عثمانی ندوی
یادوں کے چراغ کے مصنف کانام چراغ سے زیادہ روشن ہے ایسے معروف مصنف کی کتاب پر دیباچہ لکھنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ایسا لگتا ے کہ مصنف نے عزت افزائی کے لئے اس مقدمہ نگارکو زحمت دی ہے، مصنف کا نام علمی اور صحافتی دنیا مین معروف بھی ہے مقبول بھی ہے انہیں نہ تعارف کی ضرورت ہے اور نہ تحسین وتعریف کی۔ البتہ اس تعارف کی وجہ سے مقدمہ نگار کا کچھ زیادہ تعارف ہوجائے گا۔ جو شخص نقیب جیسے قدیم صحیفہ کا مدیر شہیر ہو اور جس کے مضامین ہندوستان کے طول وعرض میں شائع ہوتے رہتے ہوں اور ہزار نگاہوں کے لئے سرمہ بصیرت بنتے ہوں جس کی سطور اور مابین السطور میں غیب سے مضامین کا نزول ہوتا ہواور
نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے
وہ کیوں نہ خوبی قسمت پہ اپنی ناز کرے
ان سطور میں مبالغہ نہیں یہ شاعری بھی نہیں ۔نہ یہ بات پہلی بار کہی جارہی ہے اس مقدمہ نگار نے اس مقدمہ سے پہلے کئی بار اس مصنف سے اپنے تعلق اور محبت کا اظہار کیا ہے وہ امارت شرعیہ کے اخبار نقیب کے ایڈیٹر ہیں میں نے امارت شرعیہ کے سابق امیر سے بھی نقیب کے اداریوں کی تعریف کی تھی اور میرے بس میں ہوتا تومیں ان کو سب سے بلند اور ارفع جگہ دلانے کی کوشش کرتا۔
قرطاس وقلم کی بساط سجانا اور خیالات و افکار کو لفظوں کے موتیوں میں ڈھالنا اور پھر موتیوں کو پروکرکے مضمون کی شکل دینا یہ ایک بہت بڑا ہنر ہے بہت بڑا آرٹ ہے اور جو اس ہنر سے واقف ہے وہ بڑا آرٹسٹ اور فنکارہے بہت زیادہ قابل قدر ہے اور سماج میں سب سے زیادہ عزت کے لائق ہے کسی ڈاکٹر اور کسی انجینئر سے زیادہ، دفتر کے دفتریوں سے زیادہ مملکت کے اونچے عہدہ داروں سے زیادہ ۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر اور انجینئرکو امیرو وزیر کو، زرکار محل اور عیش کدہ نصیب ہوتا ہے اور دفتریوں کو اپنے دفتر امارت کا تاج اور مضمون نگار اور صحافی اور ادیب کو بس ایک معمولی کرایہ کا مکان وہ بیچارہ کبھی کبھی نان شبینہ کا بھی محتاج ہوتا ہے۔یہ اس لئے کہ سماج کو ادیب کی قدر وقیمت نہیں معلوم ۔
حالانکہ صحافی اور ادیب ہی ڈاکٹر اور انجینیر ہوتا ہے اس کا ہاتھ سماج کی نبض پر ہوتا ہے وہ بیماری کی تشخیص کرتا ہے اور علاج بھی تجویز کرتا ہے وہ اپنے افکار وخیالات کے سازوسامان سے سماج کی تعمیر کرتا ہے اس کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے اور انگشت تا قلم اور زبان پر” ن والقلم وما یسطرون “۔ اس کے علم اس کے عقل کی خرد افروزی سے لوگوں کو نشانات راہ کا علم ہوتا ہے وہ پوری امت کی رہنمائی کرتا ہے وہ امیر نہیں مامور ہوتا ہے لیکن دفتر کے ہر سقراط بقراط سے بڑھ کر فاضل اور امت کا رہبر ہوتا ہے اس کے پاس اختیارات کی طاقت نہیں ہوتی لیکن قلم کی طاقت ہوتی ہے اور یہ طاقت تلوارسے بڑھ کر طاقتور ہوتی ہے وہ سپاہی ہوتا ہے اور خود ہی سپہ سالاراورخودہی لشکر جرار ۔ اہل علم کو چاہئے کہ اس کی عزت کریں اس کی توقیر کریں اور سماج میں اس کو عزت کی جگہ دیں ۔ایسا نہ ہو جس کے پاس علم ہو قلم ہو لیکن وہ محروم عزت واحترام ہو ۔اور یہ شعرماحول پر صادق آئے۔
اسپ تازی ہوا مجروح بزیر پالاں
طوق زریں ہمہ در گردن خر می بینم
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اسپ تازی کسی درجہ میں مجروح ہوا ہے ۔ یادوں کے چراغ کی یہ چوتھی جلد ہے جس میں علماء مشائخ وحفاظ کرام اور شعراوادباودانشورا ن قوم وغیرہ کے خاکے ہیں۔مولانامفتی محمد ثناءالہدی قاسمی معروف ادیب اور صحافی ہیں ہندوستان کے اخبارات میں کثرت سے ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں اور نگاہ تحسین سے دیکھے جاتے ہیں ان کے اندر ملت کا درد بھی ہے، قلم کا سوز بھی ہے، فکر کی حرارت بھی ہے، مزاج کا توازن بھی ہے، میری نگاہ نارسا ان کے مضامین کو تلاش کرتی رہتی ہے اور جب رسائی ہوجاتی ہے تو اہتمام سے اسے پڑھتی ہے میں نے جو لکھا ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے بسا اوقات باہمی تبادلہ خیال بھی ہوا ہے اورکبھی کسی اہم موضوع پر میں نے ان کے فکر کو زرخیز اور قلم کو مہمیز کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔
میں نے ہمیشہ ان سے اس لئے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملت کی فکر ی رہنمائی کرسکیں ، مجھے ہندوستان کی ملی تنظیموں سے ایک گونہ مایوسی ہے نہ کہیں تخیل کی لالہ زاری نہ کہیں فکر کی تازہ کاری نہ کہیں ہمت اورحوصلہ نہ کہیں تازہ ولولہ، نہ کہیں ندرت خیال ، بس تار عنکبوت کی طرح بوسیدہ خیالات اور حد سے بڑھی ہوئی عقیدتوں کی پرچھائیاں نہ جوش عمل نہ جدت کردار، ایسی ازکار رفتہ قیادت کس کام کی۔
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے نمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
یادوں کے چراغ شخصیات پر خاکوں کا مجموعہ ہے، اردو ادب میں اس سے پہلے مولوی عبد الحق کی کتاب ”چند ہم عصر“ سامنے آچکی ہے مولانا ابو الحسن علی ندوی کی “پرانے چراغ “ رشید احمد صدیقی کی ”ہم نفسان رفتہ “اور” گنج ہائے گراں مایہ “ اور مولانا نور عالم خلیل امینی کی ”پس مرگ زندہ “ چراغ حسن حسرت کی ”مردم دیدہ“ اور نقوش کے دو خاص نمبر اور بے شمار نام ، سارے نام گنوانا چاہوں تو گنوانہ سکوں۔
مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کی یہ کتاب خاکوں کے گلدستہ میں ایک دلکش پھول کا اضافہ ہے ۔یہ تعریف جھوٹ موٹ کی تعریف نہیں ہے مولانا ثناءالہدی قاسمی کا طرز تحریر اتنا دلکش ہے کہ ان شخصیتوں پر رشک آتا ہے، جن پر خاکے لکھے گئے ا ور جی چاہتا ہے ان خوش قسمت انسانوں کی فہرست میں مقدمہ نگار کا نام بھی آئے اور شاید آبھی جائے کیونکہ عمر کا آفتاب لب بام آچکا ہے اور صحت غنچہ گل کے ثبات سے مختصر اور نازک تر۔اگرچہ مقدمہ نگار کے حالات زندگی پر انسٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز نے پوری کتاب شائع کردی ہے مگر ثناءالہدی قاسمی کا رنگِ قلم کہاں ” وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘‘۔