اعجاز زیڈ ایچ
آج – 25؍مئی 1912جدید اردو نظم کے بنیاد سازوں میں شامل،رسالہ ادبی دنیا کے نائب مدیرمیرا جی کا یومِ ولادت ہے۔
میراجی ، جن کا اصل نام محمد ثنا اللہ تھا ۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں 25؍مئی 1912 کو لاہور میں پیداہوئے۔ پہلے ”ساحری“ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ”میراسین“ کےیک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ”میراجی“ تخلص اختیار کر لیا۔
میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لئے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں ، گلے میں مالا ، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہوگئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔
شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لئے شعر کہے گا۔
صرف 38 سال کی عمر میں 3؍نومبر 1949 کو اس دنیا سے رخصت ھو گئے ۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں ، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعر ی کے مجموعے ہیں۔
معروف شاعر میراؔ جی کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔
دل محوِ جمال ہو گیا ہے
یا صرف خیال ہو گیا ہے
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے
ہر لمحہ ہے آہ آہ لب پر
ہر سانس وبال ہو گیا ہے
وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا
مژدہ کہ بحال ہو گیا ہے
چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے
پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں
پر اب کے کمال ہو گیا ہے