Urdu News

میرے استاذ،ادیب باکمال،احساس کی ترجمانی مولانا نسیم اختر شاہ قیصر

حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر

محمدشمس قمر 

متعلم دارالعلوم وقف دیوبند

جن کے سایہ میں چند الفاظ لکھنے کا سلیقہ آیا،جن کی محنتوں نے ایک نیا احساس دیا، جذبات میں نکھار دیا، آج  جہاں غم سے نڈھال ہو رہا ہوں کہ اب ایک مرجع نگاہ ہم سے اوجھل ہے،ایک نعمت سے ہم دور ہیں، وہیں فخر ہے کہ آپ نے اس نابلد ناآشنا ئے ادب کو ادب سے محبت  کرنا  سکھایا ،  اردو نے آپ ہی  کے توسط اپنی گود میں جگہ دیا ،آج اگر قلم کچھ حرکت کرنے کو تیار ہے تو آپ ہی کے  احسان اور شفقت کا مرہون ہوں ۔

جب بھی اچھی تحریر سامنے آتی اچھا کالم اخبار میں جگہ پاتا ، صاحب بصیرت افراد کے رسائل سامنے آتے،میں خود کو اس میں تلاش کرتا ان کی جگہ اپنا نام لکھتا اور پھر مایوس ہو جاتا کہ

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل

دارالعلوم وقف  میں سوم عربی کا سال ہے، ترجمہ قرآن کا سبق جاری ہے ، ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے اور بڑے دادا کے جانشیں پوتے ہمارے سامنے ہیں ، ہمارے سامنے وہ ہیں جنہیں حفید  انور شاہ کشمیری ہونے کا شرف حاصل ہے ،دوران درس ہم زانوئے تلمذ بچھائے  نگاہوں کو گاڑے، شائستہ و شیریں ،ادب کی وادی میں ایک خنکی سی محسوس کر رہے ہیں۔

یکے بعد دیگرے الفاظ و مترادفات کا سلسلہ جاری ہے،پے درپے مضامین ترتیب وار ذہن میں سما رہے ہیں، ادبی چاشنی ہر دوسرے لفظ  سے مٹھاس دے رہی ہے، ابھی انہی احساس کی وادی میں ہیں کہ ادبی چنگاری زور پکڑ رہی ہے، بڑی چابک دستی سے رواں رواں میں اثر کر رہی اور غیر محسوس طور پر،میں اس کے دام میں ہوں، اور ذوق میں ایک نیا باب ،باب ادب شامل کر رہا ہوں۔

اب جب مسلسل درسگاہ کے اختتام پر اور کمرے سے تنہائی میں ہوں، تو دماغ اسی سوچ میں مگن ہے کہ ادیب کیا ہوتا ہے، ادب کی پیاس کیسے بجھائی جائے، کیا کوئی طفل مکتب اس پایہ کا ادیب بن سکتا ہے، خود سے سوال اور خود سے اس کا بے تکا جواب لےکر اگلے روز پھر درس میں وہی کیفیت،اچانک کسی نے جھنجھوڑا اور زور کا جھٹکا دیا اور سوچ کو ایک آہٹ دی۔

دیکھا تو وہ میرا ضمیر اور میرا احساس تھا جو ساتھ رہتے ہوئے بھی میری بے چینی اور کرب وکلفت پر مجھ سے چھپ رہا تھا ،اور آہ نکال رہا تھا،مجھے خود سے قریب کیا اور کہا : تمہاری منزل یہی ہے شاید تمہاری ادبی پیاس یہاں بجھ جائے کوشش  کرو اور اجنبیت کے پردے کو چاک کرو، استاذ محترم سے ملو شاید کہ تم مایوس نہ ہو۔

اب دوستوں سے میں نے شاہ منزل کا پتہ پوچھنا شروع کیا اور اللہ نے وہاں پہونچا دیا ، منت و سماجت کے ساتھ دبے الفاظ اس خواہش کا اظہار کیا جسے امید سے زیادہ خوبصورتی کے ساتھ قبولیت ملی۔

جب یہ موقع ہاتھ آیا تو دو حبیب جناب آصف صاحب اور اخلاق صاحب بھی اس تھکا دینے والے سفر کے  مسافر بنے۔

 اب ہم تسلسل کے ساتھ بعد نماز عصر شاہ منزل حاضر ہورہے ہیں  اور ہر روز ایک نیا موضوع انوکھا اسلوب لے کر واپس آرہے ہیں، کیا انداز ہے! کیا طرز کلام ہے !اچھوتا اور انوکھا کہ بس پڑھتے جائیے بڑھتے جائیے۔

مولانا کے لکھائے ہوئے مشقیہ جملے یاد کرنا میرے لیے فخر ہی نہیں بلکہ شوق بن چکا تھا ، کتنے ادیبوں کو شہرہ آفاق مصنفوں کو پڑھا اور پرکھا لیکن اس پرورش و پرداخت میں نوک پلک میں، تراش خراش میں آپ بالکل الگ اور ممتاز ہیں۔

دن گزرنے لگے ہم متعینہ دنوں تک کچھ قلمی نوک و پلک سنوارنے میں کامیاب ہو گئے،حضرت نے سالانہ تعطیل پر سلسلہ موقوف کا حکم دے دیا ،وقتی حکم سمجھ کر ہمیں احساس نہ ہوا لیکن افسوس کہ آج تک دوبارہ اس سلسلے کا ہمیں موقع نہ مل سکا۔

سال نو کا آغاز ہے ، بہار و برسات میں پھر سے ہم نئے ہیں، درودیوار پھر سے علیک سلیک میں ہے ، سرد گرم پھر سے زور آزمائی کو تیار ہے ، اس تسلسل کا باندھ کٹ چکا ہے، شاہ منزل کے لیے ہم روز کے بدلے کبھی کبھی کے ہو گئے۔

اب اکثر  ہم جامعہ میں ہیں، استاذ محترم سامنے ہیں، کبھی لکھنے کی تاکید کر رہے ہیں،کبھی اپنے خاص انداز میں مزاح فرما رہے ہیں ،کبھی آصف بھائی سامنے ہیں تو میرا تذکرہ کبھی میں سامنے ہوں تو اوروں کا تذکرہ خوب دل بہل رہا ہے اور اجنبیت  اپنائیت کی جگہ لے رہی ہے ۔

 دیکھیے موسم کا کیا،  بہار ہے تو خزاں بھی اور خزاں ہے تو بہار بھی ، لاک ڈاؤن کا سال ہے ،ادارہ میں بزرگوں کی دعاؤوں سے ایک مقالہ پر بطور معاون پروف ریڈنگ اور محتاط انداز میں تصحیح کا کام سپرد ہوا۔

آج میں بہت خوش ہوں اور اپنے والدین اساتذہ اور ذمہ داران ادارہ خصوصا استاذ محترم و نائب مہتمم جناب ڈاکٹر شکیب صاحب قاسمی،  ہر ایک کا احسان مند ہوں ہر ایک کا مرہون منت ہوں،ان کی چھوٹی سی کاوش کو بھی اپنے حق میں رحمت سمجھ رہا ہوں ،اب میں مسلسل لائبریری حاضر ہورہا ہوں استاذ محترم تشریف لائے اور اس ذمہ داری میں دیکھ کر ایسا سراہا کہ آنکھیں بھر آئیں۔

انداز آج مزاح سے ہٹ کر ہے ، کچھ جذبات تو کچھ احساس شامل ہے، ذمہ داریوں کی کمزور گرفت میں میرے ہاتھ کو سہارا دے رہے ہیں ،زندگی گزارنے کی ایسی نصیحت ہورہی ہے کہ کروڑوں اس کا بدل نہیں ہے ، آج اس سراہے جانے پر خوش ہوں اور نگاہ پھر شرماتے ہوئے  نیچے ہے کہ صلاحیت سے بڑھ کر آپ کی موجودگی میں اللہ نے بڑا کا م دیا

اور اس سے زیادہ شکر ہے کہ اللہ نے ہم جیسوں سے یہ کام لیا، ادارہ کی خدمت کا موقع طالب علمی میں اور اس مربی کے سامنے دیا جن سے یہ کام سیکھا ہے،قلم و قرطاس کو سنوارا ہے ، ہزار بار ناکام کوشش کے باوجود دو آنسو خوشی کے گر ہی گئے۔

کیا خبر کیا ہو کس دن کا کسے انتظار ،سوچ و فکر سے پرے اس گیتئ عالم کا رواج ہے جو ہو چلا سو ہو چلا ، خبر ملی  کہ حضرت علیل ہیں ،سن کر حاضر ہوا اور پھر وہی انداز گفتگو کہاں علالت کی فکر کہاں آہ و درد بس گئے تھے۔

ان سے پوچھنے اپنی سنانے لگے اور مہمان کی طرح مدار خاطر ہوئے ،   ملاقات سے واپس آئے کچھ یادیں کچھ تذکرے ساتھ ہیں ،ہم آئے دن اس انتظار میں ہیں کہ بس آپ آرہے ہیں یا آنے والے ہیں ،ہم ہی کیا سبھی کا یہی حال تھا ، لیکن کیا معلوم کہ وہ ملاقات آخری تھی۔

اب یہ دیار باغباں کو کھو دے گا اور شاید بہار نو اس چمن کو راس آئے ، اچانک ایسا  حادثہ ہوا کہ ہم آج غمگین آنکھوں کھڑے ہیں اور آپ ابدی نیند میں ہمیشہ کے لیے ہمارے سامنے لیٹے ہیں ، ایک اطمینان اور سکون آپ پر طاری  ہے، دل ہی دل میں آواز لگا رہا ہوں ،وہی شاہ منزل ہے وہی استاذ ہیں اور وہی رفقاء ہیں، وہی حاضری ہے لیکن آج کیفیت ناقابل بیان ہے۔

Recommended