Urdu News

ایم جے اکبر کی نئی کتاب انگریز صاحبوں ، زمینداروں کے ظلم اور بھارتیوں کے بدلے کی داستان کہتی ہے

مشہور زمانہ مصنف صحافی ایم جے اکبر

محمد انس

مشہور زمانہ  مصنف صحافی ایم جے اکبر کی نئی کتاب ، ڈلیلی صاحب اینڈ  بلیک زمیندار : ریس اینڈ ریوینج اِن بِریٹیش راج شائع ہوکربازار میں آگئی ہے ، یہ کتاب انڈیا میں مغلوں کے وقت موجود فرقہ وارانہ یکجہتی اور مزاحیہ گفتگو کو بہت ہی نفاست کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ کتاب کا پہلا باب اس اصلیت کو سامنے لاتا ہے کہ مغل بادشاہ اکبر کے دور میں ہندو مسلم بھائیچارہ اپنے عروج پر تھا! یہ بھائی چارہ مہذ ایک سماجی یکجہتی نہیں تھی بلکہ تہذیبی صطح پر بھی اس کے افکار نُمایاں تھے لوگوں کو طنزومزاح کرنے اور اپنے اپنے مذہب کے حساب سے زندگی گزارنے کی آزادی تھی! جتنی آزادی ایک مولوی کو حاصل تھی اُتنی ہی آزادی کے ساتھ ایک برہمن پُجاری اپنی مذہبی رسومات کو ادا کر سکتا تھا! اکبر کے دربار میں بہت سنجیدہ باتوں کو بھی مزاحیہ انداز میں کہنے کا چلن تھا! اکبر صاحب اس بات کو اپنی کتاب میں اس طرح سمجھاتے ہیں کہ بادشاہ قانون سے اُپر تو ہوسکتا تھا لیکن مزاح کے تیروں کا وہ بھی نشانا بنتا تھا اور اس کا بھر پور لُطف بھی اُٹھاتا تھا!

اس کتاب کو دنیا کے مشہور پبلشر بُلومس بَری نے پبلش کیا ہے اور اس کتاب کو امیزن کے زریعہ خریدا جا سکتا ہے فروری سے یہ کتاب کُتب خانوں میں بھی دستیاب ہوں گی!

یہ کتاب بنیادی طور پر ہندوستانیوں کے اپنے حکمراں انگریزوں کے ساتھ تعلقات کو اُجاگر کرتی ہے اس کتاب کو لکھنے میں اکبر صاحب نے مغلوں اور انگریزوں کے دور کے کاروباریوں افسروں مسافروں اور انگریزی افسروں کے لکھی ہوئ تحریروں اور خطوں سے استفادہ حاصل کیا ہے! اکبر صاحب نے چھوٹی چھوٹی کہانیوں اور تاریخی واقعات کو اپنی حیرت انگیز سوجھ بوجھ اور تجزیاتی نگاہ سے اس طرح پیش کیا ہے کی انگریزوں کے ہندوستانیوں پر کیے گئے ظلم اور جبر  اور اس کے بدلے میں ہندوستانیوں کا غم و غصہ کھل کر کے سامنے آتا ہے اکبر صاحب کہتے ہیں جس طرح انگریز اپنی نسل پرستی ہے جنون میں ہندوستانیوں کو حقیر سمجھتے تھے اُسی طرح ہندوستانی لوگ انگریزوں سے بدلہ لینے کا کوئ موقع زائع نہیں کرتے تھے اکبر صاحب اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ اگر کوئ انگریز افسر کسی دھوبی کو کپڑے دھلنے دیتا تھا تو دھو بھی کپڑوں کو پھاڑے بغیر یا بٹن توڑے بغیر واپس نہیں کیا کرتا تھا ! ٹھیک اسی طرح اور دوسرے پیشے کے لوگ بھی انگریزوں اور اُن کے وفادار زمینداروں کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کیا کرتے تھے!

ڈلیلی صاحب کن کو کہا جاتا تھا؟

کتاب بتاتی ہے کہ ڈلیلی لفظ دیولالی قصبہ کا ایک بگڑا ہوا نام ہے مہاراسٹرا کے ناسک شہر کا ایک قصبہ ہے جہاں انگریزوں کے زمانے میں فوج کا ایک ٹرانزیٹ کیمپ ہوا کرتا تھاجو انگریز افسر ہندوستان میں اپنی سروس مکمل کر کے انگلستان لوٹنے والے ہوتے تھے اُن کو کچھ دن کے لیے اس کیمپ میں ٹھہرایا جاتا تھا۔یہ افسر کیمپ میں رہتے ہوئے اس قدر مے نوشی کرتے تھے اور مچھروں کا شکار ہوکر ایک خاص طرح کی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتے تھے اس بیماری کے شکاری افسر اُل جلول حرکتیں کرتے تھے جس کی وجہ سے کہا جاتا تھا کہ وہ ڈلیلی بن گئے ہیں اور اس طرح سے ڈلیلی لفظ تاریخ دانوں کی زبان میں شامل ہوا۔ 

بلیک یا سیاہ زمیندار کن کو کہا جاتا تھا

انگریزوں کے پیر جب ہندوستان میں اچھی طرح جم گئے اور اُنہیں کچھ بڑے شہروں میں ٹیکس کی وصولیابی کا حق حاصل ہوگیا تو اُنھوں نے کچھ بااثر اور رسوخ والے ہندوستانیوں لو اپنی طرف سے ٹیکس کی وصولیابی کے لیے مقرر کیا۔ یہ زمیندار انگریزوں کی طرح ہی بے رحم اور آم ہندوستانیوں پر ظلم کرنے والے تھے انھیں کو تاریخ سازوں نے سیاہ زمیندار کا لقب دیا۔ اکبر صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کلکتہ کے گوبند رام مترا جو کہ ۱۷۲۰سے ۱۷۲۶تک ڈیپٹی کلکٹر تھے انڈیا کے پہلے بلیک یا  سیاہ زمیندار مانے جاتے ہیں۔ وہ اپنی بر بریت کی وجہ سے بدنامِ زمانہ ہوئے۔

Recommended