اشرف علی بستوی
کانفرنسوں ۔ سمیناروں اور کتابوں کی اشاعت کا مہینہ 'اردو والوں' پر جلوہ فگن ہے ، مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ جنہیں یہ مہینہ ملا ہے اور سمیناروں کے مقالے اور کتابیں ترتیب دینے میں مصروف ہیں ، بدنصیب ٹہرہے وہ لوگ جنہیں فروری اور مارچ کا مہینہ ملا لیکن ان کے یہاں کسی سمینار کا دعوت نامہ ابھی تک نہیں پہونچا اور نہ ہی کسی مسودے کی اشاعت ان کے حصے میں آئی۔ فروری اور مارچ کا مہینہ اردو مصنفوں ،شاعروں ،ادیبوں ، پروفیسروں ، ریسرچ اسکالروں کے لیے بڑا سود مند ہوتا ہے ۔
مسئلہ دہلی میں موجود مقالہ نگاروں کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ بیرون ملک و اندرون ملک دور دراز کے شہروں سے دہلی تشریف لانے والے مقالہ نگاروں کا ہوتا ہے ان کے سامنے چیلنج یہ ہوتا ہے کہ وہ کم سے وقت میں زیادہ سے زیادہ سمینار کیسے پڑھیں ؟
سوشل میڈیا پر ایسے دعوت نامے دیکھے جا سکتے ہیں جن میں کچھ نام سبھی سمیناروں میں مشترک ہیں ، مقالہ پڑھنے والوں کی فہرست اور مہمانوں کی لسٹ لگ بھگ معمولی تبدیلی کے ساتھ ایک سی ہی ہوگی ۔
دور دراز سے آنے والے مقالہ نگاروں کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ سمینار انتطامیہ سے پہلے طے کرلیں کہ سمینار کی تاریخوں کا تعین کچھ اس طرح کریں کہ تاکہ ایک ہفتے کے ٹور میں زیادہ سمینار میں ان کی شرکت یقینی ہو سکے یہ فارمولا سمینار کرانے والی تنظیموں کے لیے بھی سود مند ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے مہمانوں پر کم خرچ میں بھی زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں ۔
سمیناروں کے عناوین عام طور پر' اردوزبان کے فروغ میں مدارس کا کردار'۔ 'جنگ آزادی میں اردو کا کردار'۔ 'ادیبوں،شاعروں،صحافیوں کی خدمات ' ۔ جیسے ملتے جلتے عناوین سے کئی دفعہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سبھی تنظیموں نے باہم مشورے سے ملتے جلتے عناوین طے کیے ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس سے مقالہ نگار کو بھی زیادہ زحمت نہیں ہوتی ایک ہی مقالے میں معمولی ترمیم سے کام چل جاتا ہے ۔
یہاں یہ ضروری نہیں ہے کہ صحافتی منظر نامے پرہونے والے سمینار پر کوئی صحافت کا طالب علم یا صحافی ہی مقالہ پڑھے ۔ اسی طرح یہ بھی لازم نہیں ہے کہ اردو زبان کی خدمت میں مدارس کے کردار پر کوئی مدرسے کا طالب علم یا استاذ مقالہ پیش کرے ۔ ایسا نہ ہونے سے ایک ہی مقالہ نگار کئی کئی عناوین اور اصناف پر پر مغز مقالے پیش کرلیتا ہے ۔
اگر آپ دارالاحکومت دہلی میں مقیم ہیں تو ایک کمرے والے نیشنل سمینار بھی ہوتے دیکھ سکتے ہیں ، عین ممکن ہے کہ شہرمیں سمیناروں کی گہما گہمی میں سمینار ہال نہ مل پانے کی وجہ سے ایسی مجبوری پیش آجاتی ہو ۔ بعض نیشنل سمینار تو ایسے ہوتے دیکھ سکتے ہیں جن میں سامعین اور مقالہ نگاروں کی تعداد لگ بھگ برابر ہی رہتی ہے ۔
منتطمین یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان کو مدعو کرنے کو اس لیےترجیح دیتے ہیں کہ اس طرح انہیں سامعین اکٹھا کرنے کی زحمت سے بھی راحت ہوتی ہے کیونکہ پروفیسر صاحبان کے ہمراہ ہمہ وقت ریسرچ اسکالرس کی ایک ٹیم جو ہوتی ہے، یہ ٹیم پروفیسر صاحب کے ایک حکم پر آسمان سے تارے توڑ کر لانے کو مجبور ہوتی ہے ۔ مجال کیا ہے کہ جناب کے یہاں کوئی عذر قابل قبول ہو ۔ ہم ریسرچ اسکالروں کو مجبور اس لیے کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنے ضمیر کی آوازسننے کی غلطی کی اور پروفیسر صاحب کے حکم کو ماننے سے انکار کیا تو پھراپنی ریسرچ کا حشر دیکھ لے گا ! ایسے میں بھلا کون ہے جو عتاب سہنے کو تیار ہوگا ۔
قابل تعریف و تشویش امر یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے مختلف عناوین پر ایسے ایسے لوگ مقالے پڑھتے ملیں گے جن کا موضوع سے دور دور کا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے ، صحافی ، شاعر ،ادیب سبھی اپنے اپنے میدان عمل سے نکل کر دوسرے میدانوں میں پر مغز مقالے پڑھتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ جسے دیکھ کر ایسا لگتا کہ بے شک ہمارا اردو طبقہ ہمہ جہت صلاحیت کا مالک ہے، کسی سوپر مین سے ہرگز کم نہیں ہے ۔
آپ نوٹ کیجیے گا اردو کی خدمت میں مصروف ایسی ایسی تنظیموں کے نام سامنے آئیں گے جن کا میدان عمل کچھ اور ہی ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کا دائرہ بہت وسیع ہے ،اردو کے چاہنے والوں کی فہرست میں 'تنظیمں' ہی نہیں کئی ایسے 'سنگٹھن ' بھی سرگرم عمل پائے جاتے ہیں جو اردو کے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں ۔
اردو کی خدمت میں مصروف سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے کیے جانے والے اردو حلقوں کے مطالبات پر بھی قابل غور ہیں کیونکہ اردو والے سمپوزیم اور سمیناروں کے سوا کچھ اور چاہتے بھی نہیں۔ سمپوزیم اورسمیناروں سے کلی طور پر انکار نہیں، اس طرح کے مباحثے مذاکرے ضرور ہوتے رہنے چاہیے ، لیکن بقدر ضرورت ۔
یہ سوال اردووالوں سے تو کیا ہی جانا چاہیے کہ وہ بتائیں کہ اردو کے فروغ میں سمیناروں کے رول کا فیصد کیا ہے ؟ اردو کی ترویج و ترقی میں مصروف ادارے بھی اپنی ذمہ داری سے جی چراتے نظر آتے ہیں ۔ سمیناروں اور سمپوزیم پر بڑی رقم خرچ کرکے وہ ایک ایسے طبقے کو اپنے قریب پاتے ہیں ، جو سبھی فورموں پر ان اداروں کا بلا جواز دفاع کرتے دیکھے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مارچ میں ہی اس قدر ہنگامہ خیزی کیوں ہوتی ہے یہ سبھی سمینار اگر پورے سال کے کلینڈر کے حساب سے ترتیب دیے جائیں تب بھی کسی حد تک انہیں اور بہتر کیا جا سکتا ہے ، ہاں اگر کوئی انتظامی دشواری آڑے آتی ہو تو اسے بھی دور کیا جانا چاہیے وسائل کا بے دریغ استعمال کسی طرح درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کیا آپ کو معلوم ہے ملک بھر میں اردو پر ہونے والے سمیناروں اور اردو کی کتابوں کی اشاعت میں این سی پی یو ایل کے مالی تعاون کا کلیدی رول ہوتا ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر این سی پی یو ایل کا تعاون نہ ملے تو یہ محفلیں سج نہ پائیں گیں ۔ این سی پی یو ایل کا اردو کے فروغ کے لیے تعاون دینا اور تنظیموں کا تعاون لینا دونوں اچھی بات ہے ۔ لیکن لینے اور دینے والے ذرا ایک لمحہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے پوچھیں کہ کیا ' اردوکا فروغ 'ہورہا ے ؟
(مضمون نگار ایشیا ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)