Urdu News

رمضان و روزہ کا اخلاقی ومعاشرتی اور طبی پہلو

رمضان و روزہ کا اخلاقی ومعاشرتی اور طبی پہلو

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

بلاشبہ رمضان اورروزہ ربانی انعامات میں سےایک ہےاوربطور خاص اخلاق و معاشرت کی تربیت اور طبی لحاظ سے انتہائی اہمیت ومعنویت کے حامل ہیں۔لغوی اعتبارسے دیکھا جائے تو رمضان لفظ ’’رمض‘‘سے بنا ہے اور اِس کامعنی جلادینےکے ہیں۔ گویا رمضان اپنے محبین کے گناہوں کو جلادیتا ہے اور اُن کی ظاہری وباطنی آلودگیوں اور کثافتوں کوخاکستر کردیتاہے۔

غنیہ میں ہے کہ’’رمض‘‘ اُس بارش کو کہتے ہیں جوپت جھڑ کے موسم میں ہوتی ہے اور اس کے سبب درختوں کے تمام پتے جھڑجاتے ہیں اور چوںکہ رمضان میں بھی کثرت سے رحمت کی بارشیں ہوتی ہیں اور لوگوں کے ظاہر ی وباطنی گناہوں کوختم کردیا جاتاہےبایں سبب اِسے رمضان کہاجاتاہے۔ پھر یہ کہ روزہ کے سبب روح میںلطافت آتی ہے،نیزقوت ارادی مضبوط اور خواہشات میں اعتدال وتوازن پیدا ہوتا ہے۔

لہٰذاروزہ دار کے اوپر لازم ہے کہ روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرے، خواہشات سے دوری بنائے رکھے اور عملی طورپر اِس بات کا ثبوت پیش کرے کہ وہ جانوروں کی طرح کھانے پینے کا اسیر نہیں ہے، بلکہ اُس کے برخلاف وہ اپنےسرکش نفس، اپنی ہوا وہوس اور شہوات پرقابو پانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

مزیدغور کیا جائے تو روزہ دراصل چندعارضی پابندیوں سے گزرنے کانام ہے جس کے سبب روزہ دار کی قوت ِدفاع میں دائمی استحکام آتا ہے اور سخت سے سخت حوادث سے مقابلہ کرنےکی اُس کے اندرطاقت وقوت پیدا ہوتی ہے۔اِس طرح روزہ دار ایک طرف اپنی خواہشات پر قابورکھنے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو دوسری طرف اُس کا قلب منور ومجلّٰی ہوجاتا ہے اور اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روزہ دار حیوانی دنیا سے بےنیازوبےرغبت اورملکوتی دنیاکی طرف مائل رہتاہےاورپھروہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَکی حقیقی چاشنی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

اِس کے علاوہ بندہ جب کھانے پینے پر قدرت رکھتے ہوئے بھی محض رضائے اِلٰہی کےلیے اُسے ترک کردیتا ہے، نیک اعمال کی پابندی کرتا ہے،ذکر واذکار کرتا ہے اورپھر توبہ و استغفار کے ذریعے قرب اِلٰہی کا طالب ہوتاہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُسے اپنا قرب خاص عطا فرمادیتاہے اور اُس وقت یہ حدیث قدسی مکمل طورپرصادق آتی ہےکہ ’’روزہ خالص میرے لیے ہے اور روزہ کا بدلہ میں خود مرحمت کرتا ہوں‘‘(صحیح بخاری:)۔

اخلاقی پہلو:روزہ کا اپنا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غیبت، چغلی اور بحث وجدل پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے۔فرمایاگیا کہ روزہ جہنم سے ڈھال ہے جب کہ اُس کوپھاڑا نہ جائے۔دریافت کیا گیا کہ اسے کیسے پھاڑا جاسکتاہے؟ارشاد ہواکہ جھوٹ، چغلی ،غیبت اور فحش کلامی کے ذریعے۔

یہاں تک فرمایا گیا کہ روزے کی حالت میں جب تم سے کوئی جھگڑے تو اپنے آپ سے کہو کہ تم روزے سے ہو اور روزے کی حالت میں جھگڑا تکرار ہرگز روا نہیں۔بلکہ ایسے مواقع پر انتہائی صبر سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔گویا روزہ ہمارے اوپر اِس لیے بھی فرض کیا گیا ہے کہ ہماری اخلاقیات بہتر ہوسکے۔

 معاشرتی پہلو:قرآن وحدیث کے مطالعے سے اِس بات کا علم بخوبی ہوتا ہے کہ روزہ کی فرضیت کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہےکہ مسکین اورمالدار اَفرادکے درمیان برابری اوررشتۂ اخوت قائم ہوجائے اور وہ اِس طورپر کہ مالدار افرادبحالت روزہ بھوک-پیاس کا مزہ چکھیںاوراُنھیںغریب ومسکین افراد کی فاقہ کشی اور کسمپرسی کا احساس ہو۔چناںچہ مسکین ومالدارافراد میں برابری اور رشتۂ اخوت کے قائم رکھنےکے لیے ہی اللہ تعالیٰ مالدار وں کورُوزے کی حالت میں بھوک-پیاس کی شدت اوراُن کے درد و غم کا احساس کراتا ہے تاکہ اُن کے دلوں میں کمزوروں اور بھوکوںکے لیے رحم کا جذبہ پیدا ہواوروہ اُن کے دکھ-درد میں کام آسکیں۔ چناں چہ اِس سے ایک طرف بندگانِ خدا میں برابری اوررشتۂ اخوت قائم ہوتی ہے تو دوسری طرف امیر-غریب کی دیواریں کرتی ہیںاور ایک دوسرے کی خیرسگالی کے لیےکوشاں رہتے ہیں، اور یوں ایک خوشحال معاشرے کا وجود مستحکم ہوتاہے۔

 طبی پہلو:روزہ اہم عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ساری جسمانی بیماریوںکاعلاج اور صحت وتندرستی کا ضامن بھی ہے۔ جیساکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ’’روزہ رکھا کرو صحت مند رہوگے۔(معجم اوسط:۸۳۱۲)ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیاکہ ’’معدہ ہربیماری کا گھر ہے اور اِمساک وفاقہ (روزہ)ہر مرض کی دوا ہے۔‘‘(زادالمعادلابن القیم، ۴/۹۶)

اور اِس بات سےکسی کو مجال اِنکارنہیں کہ آج کل جتنی بھی جسمانی بیماریاں سامنے آرہی ہیں اُن سب کی اصل وجہ کھانے پینےمیں بےاحتیاطیاں ہی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بحالت روزہ کھانےپینے میں سخت اِحتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہےاوراِس سلسلے میں افراط سے بچنے پرخاصہ زور دیا گیا ہے تاکہ روزہ دار مشقت وپریشانی میں نہ پڑجائے،اور یہ باتیں محض کہنےسننے سے تعلق نہیں رکھتیں کہ روزہ بہت ساری جسمانی بیماریوں کاضامن ہےبلکہ بیشتر ڈاکٹرز اور دانشوران کے نزدیک یہ حقیقت محقق ومسلّم ہے۔ ایک روسی دانشور’’الکسی سوفرین‘‘کاکہناہے: روزہ  بطورخاص خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، سوزش (Inflammation)، تپ دق (Tuberculosis)، اپنڈکس(Appendix) ،جوڑوں کا درد،شوگر، عرق النساء(Women’s race)، چشم(Eye )، معدہ (Stomach)، جگر(Liver) وغیرہ کی بیماریوں کے علاج کے لیے کارگر اورمفید نسخہ ہے، اورپھراِسی پر بس نہیں بلکہ روز ہ سرطان (Cancer)، آتشک (Syphilis) اور طاعون(Plague) جیسی بیماریوںکے لیے بھی کامل طورپرشفا بخش ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ روزہ محض ایمانی اور روحانی طورپر مفید نہیں بلکہ اخلاقی ومعاشرتی اور طبی اعتبارسے بھی یہ اپنے اندر گوناگوں خوبیاں اورمختلف افادی پہلو رکھتا ہے،اِس لیے روزہ سے بھاگنے اور جی چرانے کی بجائے اُس کے پورے اصول وضوابط اور روحانی خوشی کے ساتھ اُسےبرتنے میں ہی خیر ہےکہ یہ دین اور دنیادونوں میں سرخروئی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔

Recommended