اعجاز زیڈ ایچ
آج 15؍فروری 1935منفرد لب ولہجے کےمشہور شاعرڈاکٹر بشیر بدرؔ کا یومِ ولادت ہے۔
نام سیّدمحمدبشیر،ڈاکٹر۔ تخلص بدرؔ ہے ۔ وہ ۱۵؍فروری ۱٩٣٥ کو کان پور میں پیدا ہوئے۔ اعلی تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ایم اے کے امتحان میں یونیورسٹی کے تمام شعبوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے پر ’’رادھا کرشن‘‘ ایوارڈ ملا۔
’’آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ‘‘لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تقرر ہوا۔ بعد میں میرٹھ یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’اکائی‘،’آسمان‘،’امیج‘،’آہٹ‘،’اللہ حافظ‘،’آمد‘،’بیسویں صدی میں اردو غزل‘،’کلیات بشیر بدر‘بھی شائع ہوگئی ہے۔
آپ کی غزلوں کا انتخاب ہندی میں’’تمہارے لیے‘‘کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ اردواکیڈمی یوپی اور بہار اردو اکادمی نے ان کی کتابوں پر انعام دیا ہے ۔ میرؔ اکادمی نے ان کو ’’امتیاز میر‘‘ پیش کیا ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:170
مشہور شاعر ڈاکٹر بشیر بدرؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔۔۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
—
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
—
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
—
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
—
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
—
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
—
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا
—
حسیں تو اور ہیں لیکن کوئی کہاں تجھ سا
جو دل جلائے بہت پھر بھی دل ربا ہی لگے
—
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے