Urdu News

ذوقی کی زندگی اور ناول نگاری پر ڈاکٹر عبد الحئی کی جذباتی، تاثراتی مگر عالمانہ تحریر

تصویر میں: مشرف عالم ذوقی کو گلدستہ پیش کرتے ہوئے نوجوان ناقد ڈاکٹر عبد الحئی جب کہ بیٹھے ہوئے نظر آ رہے ہیں ممتاز بزرگ صحافی و ادیب نند کشور وکرم

مشرف عالم ذوقی کو آج ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال ہوگیا لیکن اس ایک سال میں بارہا ان کا تذکرہ مختلف حوالوں سے سے ہوتا رہا ہے۔ ذوقی بطور ناول نگار یا بطور افسانہ نگار کتنے کامیاب رہے ہیں یا وہ کتنے بڑے فکشن نگار تھے یہ ایک الگ موضوع ہوگا اور اس سے اتفاق یا اختلاف کی گنجائش نکلتی ہے لیکن اس بات سے سبھی لوگ اتفاق کریں گے کہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ بہت سادہ دل،دوستوں کے دوست اور اپنوں کے غم میں برابر کے شریک رہنے والے، مجھ سے جب بھی ملتے بہت شفقت سے پیش آتے اور میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کے  ناول بہت اچھے ہیں۔ آتش رفتہ کا سراغ بھی اپنے موضوع پر بہت عمدہ ناول ہے۔ پڑھ کر دیر تک اس ناول میں کھویا رہا۔

اس ناول کے کردار اور واقعات ہمیں ایسی دنیا سے واقف کراتے ہیں جو ہمارے سامنے ہے لیکن ہم انھیں دیکھ نہیں پاتے ،سمجھ نہیں پاتے۔معاشرے میں آج عجیب و غریب صورتحال ہے۔جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے باوجود ہمیں مظلوموں و محکوموں کی طرح زندگی گذارنی پڑ رہی ہے۔ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادی سیاست دانوں اور امیر لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئے ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں جیسے چاہتے ہیں ان معصوم لوگوں کو استعمال کرتے ہیں ان کا استحصال کرتے ہیں۔

ان افراد میں سے ہی مشرف عالم زوقی جیسا حساس شخص پیدا ہوا ہے جس نے ظلم وجبر کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے اور اپنے ناولوں، افسانوں میں حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔  ان کی تحریریں اردو ادب میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔۔ذوقی نے اس ناول میں زندگی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔یہ ناول محض بٹلہ ہائوس انکائنٹر تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ اسے مسلمانوں کے ساتھ آزادی کے بعد سے ہورہے مسلسل ظلم و ستم کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ ملک تو 1947میں آزاد ہوگیا تھا لیکن کیا ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو آزادی ملی تھی۔اکیسویں صدی جہاں اپنے ساتھ نئے نئے انقلابی وسائل لے کرآئی وہیں تباہی اور ظلم و جبر کی نئی داستان بھی تاریخ کے صفحات پر رقم ہورہی ہے۔عراق۔امریکہ وار،ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ،امریکہ اور افغانستان کی جنگ، پاکستان میں ڈرون اٹیک،ہندوستان کے پارلیمنٹ پر حملہ،گجرات کے فسادات،پاکستان میں انتہاپسندی کے واقعات ،ممبئی کا دہشت گردانہ حملہ اور پھر ان سب واقعات و سانحات کے ایک عام انسان پر پڑنے والے اثرات۔ ظاہر ہے کہ ایک عام انسان بھی ان واقعات سے متاثر ہوتا ہے اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسے کن حقائق سے روبرو ہونا پڑتا ہے یہ سب کچھ آپ کو ذوقی کے اس ناول میں مل جائے گا. ذوقی نے عام فہم انداز میں ہماری آپکی داستان ہمارے سامنے پیش کی ہے۔

یہ ناول زوقی سے منسوب ضرور کیا جائے گا لیکن اس کے کردار ہم سب ہیں۔یہ ہماری کہانی ہے ،ایسی کہانی جس سے آج تک پردہ نہیں اٹھایا گیا جس پر کسی نے نہیں لکھا۔ایک ایسی حقیقیت  جس سے آنکھ ملانے سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔زوقی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ کردار کی زندگی کے چھپے ہوئے پہلوئوں  اور گمنام گوشوں سے کچھ اس طرح پردہ اٹھاتے ہیں کہ قاری قدم قدم پر چونک اٹھتا ہے۔اس ناول کو پڑھتے ہوئےHarriet Beecher Stowe کے ناولUncle Tom's Cabin(1852) اور محسن حامد کے ناولThe Reluctant Fundamentalist کی یاد آگئی۔انکل ٹامس کیبن میں امریکہ میں برسوں سے چلی آرہی غلامی کو موضوع بنایا گیا تھا اور محسن حامد کے بنیاد پرستThe Reluctant Fundamentalist میں امریکہ میں نو گیارہ کے بعد مسلم نوجوانوں کی صورتحال کو پیش کیا گیا ہے۔

آج ذوقی بھلے ہمارے ساتھ نہ ہوں لیکن ان کی تحریریں ہمیشہ ان کی یاد تازہ کرتی رہیں گی۔ ذوقی جیسے فکشن نگار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ ان کی اور ان کی اہلیہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے بیٹے کو سلامت رکھے۔ آمین

Recommended