Urdu News

کیوں ضروری ہے 6دسمبر کو بھول جانا؟

کیوں ضروری ہے 6دسمبر کو بھول جانا؟

<p style="text-align: right;">رام جنم بھومی بابری مسجد کا معاملہ اب ختم ہوا؟
6دسمبر یوم سیاہ یا یوم فتح؟</p>

<h4 style="text-align: right;">کیوں ضروری ہے 6دسمبر کو بھول جانا؟</h4>
<p style="text-align: right;">6 December
اتر پردیش کے تاریخی شہر ایودھیا میں ایک بابری مسجد تھی۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لئے یہ ایک ”ووادت ڈھانچہ“ تھا۔ پچاس برسوں تک عدالت میں اس کا مقدمہ چلا۔ 6دسمبر 1992کو ایودھیا میں یہ مسجد گرا دی گئی۔ وشو ہندو پریشد نے کہا کہ ایودھیا میں کلنک مٹ گیا۔ مسلمانوں کے نمائندوں نے کہا کہ مسجد شہید کر دی گئی۔ مسلمانوں نے ہمیشہ سے کہا تھا کہ عدالت کا فیصلہ وہ مانیں گے۔ عدالت میں برسوں سنوائی ہوتی رہی۔ گواہیاں ہوئیں۔ بحثیں ہوئیں۔ پیشی ہوئی۔ معاملہ چلتا رہا۔ ملک میں منافرت کی فصلیں بھی لہرائیں۔ دنگے بھی ہوئے۔</p>
<p style="text-align: right;">گزشتہ برس سپریم کورٹ آف انڈیا نے فیصلہ سنایا۔ وعدہ کے مطابق مسلم فریقین نے فیصلہ تسلیم کیا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اسے دل سے قبول نہ کر سکا۔ ابھی کچھ حلقوں سے یہ آواز آ رہی ہے کہ ہر سال ہم یوم سیاہ منائیں گے۔</p>

<h4 style="text-align: right;">کیا خدشات ہیں؟</h4>
<p style="text-align: right;">6 December
خدشہ ہے کہ مسلم نوجوان سڑکوں پر اتر کر احتجاج کریں اور پولس کی لاٹھیاں کھائیں۔ سماج کے بااثر افراد کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟  6دسمبر کو اب بھول جانا چاہئے؟ کیا مسلم نوجوانوں کو اپنی صلاحیت کسی اور کام میں لگانا چاہئے؟ کیا اب احتجاج کر کے یہ نوجوان اپنا اور اپنے سماج کا نقصان کر رہے ہیں؟ انھی سوالوں کے ساتھ انڈیا نیریٹو نے سماج کے پڑھے لکھے کچھ با اثر شخصیات سے بات چیت کی۔</p>

<h4 style="text-align: right;">مشتاق احمد نوری کا مشورہ</h4>
<p style="text-align: right;">6 December
بہار سرکار کے اعلیٰ افسر رہے مشہور افسانہ نگار مشتاق احمد نوری کا خیال ہے کہ اب 6دسمبر کو بھول جانا چاہئے۔نورانی چہرے والے مشتاق احمد نوری بہار اُردو اکیڈمی کے سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ اپنے وقت کے تیز طرار افسر گردانے جاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے۔ ”بلیک ڈے منانا بے وقوفی ہے۔ جب کچھ کرنے کا تھا تو کچھ کیا نہیں۔ اب لکیر پیٹ رہے ہیں۔ خون لگا کر شہید ہو رہے ہیں۔ بھیڑ کے نوجوانوں سے پوچھیں کہ تم مسجد کے لئے لڑ رہے ہو تو یہ بتاؤ تم میں سے کتنے لوگ مسجد جاتے ہو؟ جواب مایوس کن ہوگا۔“ نوجوانوں کو ماضی کی لکیر پیٹنے کے بجائے مستقبل پر نظر رکھنی چاہئے۔ اور قوم کو آگے بڑھانے کی ترکیب کرنا چاہئے۔</p>

<h4 style="text-align: right;">ڈاکٹر ظہیر رحمتی کی کچھ الگ ہی رائے ہے</h4>
<p style="text-align: right;">تاریخی شہر رام پور سے تعلق رکھنے والے، دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر، عہد حاضر کے ممتاز شاعر اور نقاد ڈاکٹر ظہیر رحمتی 6دسمبر کے حوالے سے کچھ الگ ہی رائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر رحمتی سماجیات اور سیاسیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے۔ ”جب مسلمانوں نے عدالت عالیہ کے فیصلے کو اولیت دی ہے تو اب کاہے کا احتجاج۔؟ اور کس سے احتجاج؟۔ تاریخ سب کچھ یاد رکھے گی کہ عدل و انصاف کا میزان غیر متوازن ہے۔ اگر کالا دن ہی منانا ہے تو اب اس تاریخ کو منایا جانا چاہئے جس تاریخ کو عدالت عالیہ کا فیصلہ آیا ہے۔“</p>

<h4 style="text-align: right;">مراد آباد کے سماجی کارکن محمد جان ترکی احتجاج جاری رکھنے کے خواہاں</h4>
<p style="text-align: right;">اتر پردیش کا تاریخی شہر مراد آباد پیتل کے برتن، مراد آبادی بریانی اور جگر مراد آبادی کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اسی شہر کے ایک مشہور سماجی کارکن محمد جان ترکی کا خیال ہے کہ ہمیں 6دسمبر کو یاد رکھنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سڑکوں پر نکل کر، یا جلوس نکال کر احتجاج نہ کیجئے۔ لیکن ہاتھوں پر کالی پٹّی باندھ کر اپنا احتجاج درج کرائیں۔ محمد جان ترکی کا کہنا ہے کہ۔”بازو میں پٹّی باندھ کر ہر روز کی طرح اپنے کام میں لگے رہنا ہے۔ ہمیں سڑکوں پر نعرے نہیں لگانے   ہیں۔ جہاں بھی جائیں ہمارے بازو پر پٹّی بندھی ہونی چاہئے۔“</p>

<h4 style="text-align: right;">شاعر اور ادیب ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کا دانشمندانہ مشورہ</h4>
<p style="text-align: right;">بہار کے بتیا کی مشہور ہستی، شاعر اور نقاد ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کچھ بہت عملی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کا کہنا ہے کہ 6دسمبر کی بات کرنے کے بجائے مسلمانوں کو متحد کرنے کی بات کرنی چاہئے۔ ان کا زور مسلمانوں کے اتحاد پر ہے۔ ڈاکٹر نسیم سیاسی حلقے میں بھی خاصے مقبول ہیں۔ وہ سیاست اور اہل سیاست کے قریب بھی رہے ہیں۔ وہ بدلتے حالات میں مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ پٹنہ میں مقیم مشہور افسانہ نگار مشتاق احمد نوری کا کہنا ہے۔ ”مسجد شہید ہو گئی۔ ہمارے علماء، نیتا اور مسجد کے بہی خواہ اعلان پر اعلان فرماتے رہے۔</p>
<p style="text-align: right;">کہ جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوگا ہم اسے تسلیم کر لیں گے۔ لیکن کسی ہندو تنظیم نے نہیں کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانیں گے۔ سب نے کہا ہم مندر وہیں بنائیں گے۔ جب مسلمان ہار گئے تو کس منہہ سے اپنے بیان سے پلٹ گئے۔؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف رٹ داخل کیا اور منھ کے بل گرے۔“</p>

<h4 style="text-align: right;">دکن کے نوجوان اسکالر ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی کی رائے</h4>
<p style="text-align: right;">مہاراشٹر کا تاریخی شہر اورنگ آباد دکنی تہذیب کا مرکز بھی ہے۔ اہل اورنگ آباد نے اپنی روایات کو بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اپنے زمانے کے استاد شاعر حضرت علامہ جے پی سعید کے صاحب زادے ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی کا شمار نئی نسل کے ممتاز اسکالرس میں ہوتا ہے۔ قاضی نوید کا کہنا ہے کہ بیتی باتوں کو یاد کرنے کا بھلا کیا فائدہ ہے۔حیدر آباد کے بعد اورنگ آباد واحد ایسا شہر ہے جہاں سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا ممبر آف پارلیمنٹ منتخب ہوا ہے۔ امتیاز جلیل لوک سبھا میں اورنگ آباد کی نمائندگی کرتے ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">افسانہ نگار <a href="https://urdu.indianarrative.com/culture/after-eight-months-religious-places-open-in-maharashtra-people-are-happy-15939.html">نورالحسنین</a>، ناقد پروفیسر سلیم محی الدین اور ڈاکٹر فیصل احمد، ڈاکٹر فیاض فاروقی، ڈاکٹر شیخ پرویز اسلم جیسے اسکالرس بھی اسی شہر کی زینت ہیں۔ 6 December ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی کا کہنا ہے۔ اب کچھ کر کے کیا ہونے والا ہے؟۔ خاموش رہنا اور دعا کرنا ہی بہتر ہے۔“</p>.

Recommended