Urdu News

خلیج عرب میں اردو کا نقیب: ڈاکٹر افروز عالم

ڈاکٹر افروز عالم

غلام مصطفی(فیصل آباد)

ڈاکٹر افروز عالمؔ کی شخصیت اخلا ص اور جنون کا مر قع ہے۔چیتے کی طرح تیز رفتار رکھنے والے ڈاکٹر افروز عالمؔ کو دور رہنے کے باوجود میں اتنا قریب سے جانتاہوں کہ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس مضمون میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں، سو ابتدا یہ ہے کہ آپ کی پیدائش یکم اپریل ۵۷۹۱ءکو بتھوا بازار ضلع گوپال گنج،بہار -بھارت میں ہوئی۔ان کا خاندانی نام افروز عالم میکرانی اور ادبی نام افروز عالمؔ ہے۔ وہ ایم بی اے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ایپلی کیشن میں بھی پوسٹ گریجوایٹ ہیں۔انہوں نے تلاشِ روزگار کے لیے مشرقِ وسطیٰ کا رخ کیااور 3سال سے کچھ زائد عر صہ سعودی عرب کے شہر ھفوف میں گذارا۔

اس کے بعد قریب 18سال کا عرصہ کویت کے ریگزاروں کی نذر ہوا۔ قریب دوسال دوبئی اور عمان میں چکر کاٹے اس کے بعد آج کل جدہ (سعودی عرب) میں قیام پذیر ہیں۔روزگار کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ ادبی سر گرمیاں بھی جاری و ساری ہیں۔ ان کی شاعری کا آغا ز سعودی عرب کے پہلے قیام کے دوران ہوچکا تھا۔تاہم اردو شعروادب کے لیے ان کی خدمات مشرقِ وسطیٰ میں ایک مسلمہ حیثیت اختیار کر چکی ہے۔وہ ان سر گرمیوں کو جو ش و جذبے اور عزم و ہمت سے ایک جنونی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے۔

مشرق ِ وسطیٰ ہو یا بھارت وہ تمام ادبی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور بھارت میں اردو شعروادب کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر وکرم شیلا ہندی بدیاپیٹھ، بھاگل پور(بہار) نے 2020ء میں افروز عالمؔ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے نوازا، جب کہ مختلف ادبی تنظیموں سے ملے ہوئے بے شمارا عزازات کا شمار کرنا مشکل ہے۔

آج بھی وہ کسی بھی شہر یا خطے میں ہوں اُردو شعروادب کا فروغ ان کی اولین تر جیح ہے اور اس سلسلے میں ان کی خدمات ایک مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ بجا طور پر کہا جا سکتاہے کہ اُ ردو شعروادب ان کی محبت ہے جس کو وہ کسی بھی جگہ نظر انداز نہیں کر تے۔ان کی مثال ایک ایسی ادبی شخصیت کی ہے جن کا اوڑھنا بچھونا اردو شعروادب ہے۔ڈاکٹر افروز عالمؔ نے ادبی سر گرمیوں کے ساتھ

ساتھ مرتب و تخلیق کا عمل بھی جاری رکھا۔اس سلسلے کی پہلی کتاب ”فصلِ تازہ“کے نام سے 2005ء میں شائع ہوئی۔ اس شعری گلدستے میں کویت کے 14شعرا کا کلام اور کوائف شامل ہیں۔ یہ انتخاب ارباب ِ فکر وفن کویت نامی ادبی تنظیم سے شائع ہو ا اور اس وقت ڈاکٹر افروز عالم اس کے جنرل سیکریٹری تھے۔ ”فصلِ تازہ“میں کویت کے وہ شعرا شامل تھے جو شعری روایت کا سلسلہ جدید انداز میں جاری رکھے ہوئے تھے۔ بقول پروفیسر سید تسلیم اکبر شاہ

 ”افروز عالم کی مرتب کر دہ مجموعہ ”فصلِ تازہ“اُردو ادب میں تازگی کا احساس دلائے گا اور اس کی مہک دور دور تک پھیلے گی۔کویت میں افروز عالمؔ جیسے اردو ادب سے محبت کر نے والے نوجوانوں کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ کویت میں اُردو ادب کا چراغ ہمیشہ روشن رہے گا۔“

       افروز عالمؔ کی اردو شعروادب سے محبت سعودی عرب کے اولین قیام سے شروع ہوچکی تھی۔تاہم کویت میں ان ادبی سر گرمیوں نے بہت وسعت اختیارکی۔انہوں نے اپنی شہرت اور نام کی بجائے صرف ادب برائے ادب کے لیے کام کیااور ہر اہم شعری نشست،مشاعرے،تقاریب رونمائیاں اور شعرا کے استقبال اور قیام میں افروز عالم پیش پیش رہے۔ انہوں نے2006ء میں ڈاکٹر سعید روشن کی کتاب ”تاریخِ اُردو ادب کویت“کے مرتب کر نے میں بھرپور کر دار ادا کیا۔ 2007ء میں ان کا پہلاشعری مجموعہ ”الفاظ کے سائے“شائع ہوا۔

ارباب فکر وفن کویت کے جنرل سیکریٹر ی کی حیثیت سے افروز عالمؔ نے اردو شعروادب کے فروغ کے لیے بھر پور کام کیا۔اپنے دوست رشید میواتی کی حادثاتی موت کے بعد ان کے فن اور شخصیت پر صرف ایک سال کے مختصر عرصے میں قابلِ ذکر کتاب ”رشید میواتی-فن اور شخصیت“مرتب کی۔ ذاتی دلچسپی سے مضامین لکھوائے اور ترجیحی بنیادوں پر اس کتاب کو مکمل کر کے 2008ء میں شائع کیااور اپنے عزیز دوست رشید میواتی کو خراجِ تحسین پیش کر کے ادبی سفر کا ایک نیا مرحلہ طے کیا۔

کویت میں اُردو شعروادب کی ہمہ جہتی تصویر کی تکمیل ڈاکٹر افروز عالم ؔکی ادبی تصنیف ”کویت میں ادبی پیش رفت“سے ہوتی ہے۔یہ کتاب کویت میں اردو شعروادب کے منظر نامے کو ہر پہلو اور زاویے سے نمایاں کرتی ہے اور کویت کی ادبی تاریخ کا درجہ رکھتی ہے۔ شعری اور نثری ادب کے احاطے کے ساتھ ساتھ کویت کی ادبی تنظیموں،قد آور ادبی شخصیات کے تعار ف اور مضامین پر مشتمل ہے۔ مزید بر آں 2015ء تک کی شعری و نثری تصانیف کی مکمل تفصیل کے ساتھ ساتھ اردو شعرا اور شاعرات کی کویت میں آمد،قیام اور تصانیف کی تفا صیل سے بھی مر صع ہے۔ ریاست کویت کا مکمل تعارف بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔بقول مشرف عالم ذوقی:

”اُردو کے فروغ کا ذکر ہو اور افروز عالمؔ کا ذکر نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں۔یہ اُردو سے افروز عالمؔ کی محبت ہی ہے کہ وہ جہاں بھی ہوتے ہیں،24گھنٹے صرف اردو زبان کی ترقی اور تمنا کے نئے امکانات پر غور کر تے رہتے ہیں۔ ”کویت میں ادبی پیش رفت“ ان کاتازہ کرشمہ ہے۔افروز صاحب نے عرق ریزی اور محنت سے یہ کارنامہ انجام دیاہے۔“

 میرے نزدیک یہ کارنامہ اس لیے بھی منفرد ہے کہ اس کتاب نے مجھے اپنے پی ایچ ڈی کے موضوع ”مشرقِ وسطیٰ میں اُردو شاعری کا ارتقا“کے حوالے سے کویت کے بارے میں جملہ معلومات فراہم کی ہیں۔ایسی ادبی تاریخ مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں کسی جگہ نہیں ملتی۔یہ ادبی تاریخ کویت میں اردو شعروادب کی تاریخ اور ارتقا کوبھرپور انداز میں بیان کر تی ہے اور یہی افروز عالم کی اردو سے محبت اور وابستگی کا واضح ثبوت ہے۔بقول ڈاکٹر مہتاب عالم:

”کویت میں ادبی پیش رفت افروز عالمؔ کی ایسی کتاب ہے جس کے مطالعہ سے کویت کی تاریخ،تہذیب و ثقافت، زبان و ادب،مذہب لباس، غذا،جغرافیائی حالات و موسم کو قریب سے جاننے کا موقع ملتاہے۔“

افروز عالم کی شخصیت کا ایک اہم پہلو جس سے میرا واسطہ رہا وہ یقینا قابل ذکر ہے۔میرے پی ایچ ڈی کے موضوع کی تفویض کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں اردو شعروادب کے حوالے سے معلومات کے حصول کے لیے آغاز کیا تو کسی کرم فرما نے افرعزعالم صاحب کا نام بتایا، اس لئے سب سے پہلا رابطہ ڈاکٹر افروز عالمؔ سے ہوا۔

بغیر کسی شناسائی اور تعلق کے ان کی کمال اپنائیت اور محبت نے مجھے خوشی و مسرت کے ساتھ حیرت زدہ بھی کر دیا۔جس شفقت اور محبت سے انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے اردو شعری ادب کے حوالے سے معلومات فراہم کیں اور مجھے بھارت سے اپنی ضخیم کتاب ”کویت میں ادبی پیش رفت“کی فراہمی یقینی بنائی اور مجھے ہمہ وقت معلومات اور معاونت کا سلسلہ جاری رکھا۔میرے بار بار پوچھنے اور وقت بے وقت مداخلت کے باوجود ان کے لہجے اور انداز ِ گفتگو میں جو اخلاص اور مشفقانہ سرپرستی کا عنصر ہمیشہ موجود رہا میرے لیے اعزاز سے کم نہیں۔

ایک ایسا شخص جو بغیر کسی تعارف اور تعلق کے میرے جیسے دیارِ غیر میں بیٹھے ایک اجنبی کے لیے اس قدر خدمات سرانجام کر سکتا ہے وہ اپنے قریبی دوستوں، عزیزوں اور اردو شعروادب سے وابسطہ دیگر افراد اور شخصیات کے لیے کیا کچھ نہ کر تا ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اردو شعروادب سے وابسطہ افراد کے لیے افروز عالم کی خدمات ایک اثاثہ ہے۔ انہوں نے ادبی حلقوں میں انا اور اجنبیت کی دیواریں اپنی کمال محبت، رواداری اور وضع داری سے گرا کر سب حلقوں کے لیے ایک دوستانہ ماحول پیدا کر نے میں اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیاہے۔ان کا یہ عمل آج بھی اسی جذبے اور ذوق سے جاری و ساری ہے۔ بقول شاہد حنائی:

”کویت میں مقیم اردو کے شاعر، افسانہ نگار خوب آگاہ ہیں کہ افروز عالم نے ادب اور ادبا کے لیے دن رات دامے، درمے، قدمے، سخنے جی جان سے محنت اور خدمت کی ہے۔بیرون کویت سے آنے والی ہر ادبی شخصیت کے استقبال کو ہوائی اڈے پر موجود ہوتاہے۔ مہمان جو ایام کویت میں گذارتاہے افروز اس کا سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتاہے۔ خاطر مدارت، جی حضوری، خوشنودی، مہمان داری میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتا۔“

ڈاکٹر افروز عالم کی تصنیف و تالیف کا سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔2022ء میں ان کی 2انتہائی اہم ادبی کتب منظر عام پر آئی ہیں جو ان کی اردو شعروادب کے ساتھ بے لوث وابستگی کا واضح ثبوت ہیں۔ ”نازشِ لوح قلم“ڈاکٹر افروز عالم ؔکے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔اس میں برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ کے نامور شعرا اور شاعرات کے فن پر تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ ان کی دوسری کتاب ”جہان باقی“ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

اس میں مشرقِ وسطیٰ کے ہر دلعزیز اور غزل کے امام باقی احمدپوری کے کوائف،شعری مجموعوں کی تفصیل، تنقید ی مضامین اور ان کی شاعری کا انتخاب شامل ہے۔ باقی احمد پوری پر مرتب ہونے والی یہ واحد ضخیم اور معلومات سے بھرپور کتاب ہے، جس کی مثال کم از کم پاکستان یا دیگر ممالک میں نہیں ملتی۔ ڈاکٹر افروز عالم ؔنے ”جہانِ باقی“کے ذریعے برصغیر پاک وہند اور مشرقِ وسطیٰ کے اس عظیم غزل گو شاعر کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیاہے۔ ”جہانِ باقی“باقی احمد پوری کی شاعر ی، تعارف اور حالاتِ زندگی کی ایک مکمل دستاویز ہے۔

ڈاکٹر افروز عالم کی ادبی قدو قامت پر بے شمار مضامین لکھے گئے ہیں اورو ہ مضامین اخبارات و رسائل میں شائع بھی ہوتے رہتے ہیں جب کہ ان مضامین کو مرتب کر کے آپ کے فن و شخصیت کے حوالے سے کتابیں بھی مرتب ہوئی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف مشہور ادیب و شاعر ہیں بلکہ اہل علم و دانش کی نگاہ میں مقبول بھی ہیں۔ ابھی آپ کی کئی کتابیں منتظر اشاعت ہیں، جس میں شعری مجموعہ ”خیالوں کے سراب“ اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ”ماضی کے نقوش“ اپنے عنوان کے حوالے سے بہت اہم معلوم ہو رہے ہیں۔ “خیالوں کے سراب” کی پی ڈی ایف فائل میرے ہاتھ لگی ہے اس لئے بہتر لگتا ہے کہ اس میں شامل اشعار کے حوالے سے کچھ اور بات کر لی جائے۔

“خیالوں کے سراب” کی شاعری اپنی فکر اور معنویت کے اعتبار سے ادراک کے اعلیٰ دریچوں پر دستک دیتی نظر آتی ہے۔یہ شاعری ایسا معیار متعین کرتی ہے، جس میں انسانی جذبات و احساسات ارفع و اعلیٰ  بلندیوں کے حامل نظر آتے ہیں۔”الفاظ  کے سائے“            سے”خیالوں کے سراب“تک کا سفر امکانات کی ایک نئی دنیا لیے ہوئے ہیں۔اس شاعری میں ہمیں ڈاکٹر افروز عالم کی شخصیت میں سوچ اور فکر کے ارتقائی زاویے بدرجہ اتم نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر افروز عالمؔ نے تصوراتی پہلووئں کی بجائے اپنی شاعری کو حقیقی ماحول اور اقدار سے وابستہ کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری تصورات کے حسین کینوز پرزندگی کے بے رحم حقائق کی آئینہ دار ہے اور قدم قدم پر انسانی ذہن کی تعمیر و تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ڈاکٹر افروز عالمؔ واحدا دبی شخصیت ہیں جنہوں نے اردو شاعری کے ساتھ ساتھ نقد و نظر کو بھی بنیادی اہمیت دی ہے۔وہ بیک وقت ان ادبی محاذوں پر اپنے وجود کو منوا رہے ہیں۔اسی اخلاص اور جنون کی بدولت ڈاکٹر افروز عالم بھارت سے مشرق وسطیٰ تک اہم ادبی شخصیت کی فہرست میں مقام حاصل کر چکے ہیں۔ان کی اردو شاعری کا دوسر ا مجموعہ”خیالوں کے سراب“ کے نام سے منتظر اشاعت(زیر ترتیب) ہے۔اس شعری مجموعے میں زندگی کی ابدی حقیقتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔اس کی شاعری فکری محاسن کی

رفعتوں کے ساتھ ساتھ فنی محاسن سے بھی مزین ہے۔ خیالوں کے سراب کی شاعری غم دوراں اور غم جاناں کا مرقع ہے جو اظہار ذات سے شروع ہو کر کائنات پر محیط ہے۔آخر میں ڈاکٹر افروز عالم کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ ”خیالوں کے سراب“ کا ہر شعر عمدہ خیال اور فکر کا نمونہ ہے۔مضمون کی طوالت کے پیش نظر اشعار کا انتخاب مختصر رکھا گیا ہے۔

                  چشم حیرت میں بھی رقصاں تھی جھڑی اشکوں کی       اپنے   دامن  کو   بھگوتا   تو  سخن ور   ہوتا

                  دیر  تک  چاندنی ساحل پہ تھی رقصاں،افسوس          میں  وہیں  جھیل  پہ  ہوتا  تو سخن ور ہوتا

                  ہر گام پہ روشن ہیں ضرورت کے ستارے          دنیا  نے  تراشے ہیں صنم اور طرح کے

                  اوروں  کی  طرح  بات بناتا نہیں عالمؔ               ہر  اک  پہ وہ کرتا ہے کرم اور طرح کے

                  روح کو تازگی دے جائے ہے شبنم کی طرح                 جب بھی وہ شعلہ بدن میری  بغل میں آئے

                  جبر کی حد سے نکلنے کی جو خواہشات میں لوگ        دیکھتے  دیکھتے  سب  دام  اجل میں آئے

                  سنا ہے منبر عالمؔ سے تم گریزاں  ہو                 تمہیں تو دل کے حرم کا امام ہونا تھا

                  آتجھ کو بتا دوں میں اچھی سی غزل کیا  ہے          افکار  کے سانچے میں لفظوں کا  اتر  جانا

                  جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو            رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو

                  اس عہد پر فریب میں ایک آدھ  دوست بھی       جو  بچ  گیا  تو  اس  کو  غنیمت  شمار  کر

                  یہ عہد حاضر کی ہے حقیقت یا آسماں کی عنایتیں ہیں  زمیں  پہ  ایڑی رگڑ رہا ہوں لہو کا چشمہ ابل رہا ہے

Recommended