اردوشعر و ادب میں قومی یکجہتی
کیا بے وقت کی راگنی ہے قومی یکجہتی کا تصور
ڈاکٹر شفیع ایوب
قومی یکجہتی کا نعرہ ہم خوب بلند کرتے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ سیاسی حالات میں کچھ لوگ کہنے لگے ہیں کہ قومی یکجہتی کا راگ اب بے معنی ہے۔ کیا یہی سچائی ہے؟ ہندوستان جیسے کثیر لسانی ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں، وہاں قومی یکجہتی کی باتیں محض باتیں نہیں ہیں۔ ان باتو کو دہراتے رہنا بے حد ضروری ہے۔ ان باتوں کو بار بار یاد دلاتے رہنا اس لئے ضروری ہے کہ قومی یکجہتی کی روایت کو کمزور کرنے کے لئے بھی کچھ طاقتیں سرگرم ہیں۔ قومی یکجہتی کی تعریف میں کچھ دانشوروں نے ایسی ایسی نا قابل تفہیم باتیں کہی ہیں کہ بس اللہ کی پناہ۔ لیکن ایک عام آدمی کے لئے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ قومی یکجہتی کی سب سے بڑی ضرورت ہے وطن سے محبت۔ پھر دوسرے مذہب اور فرقے کے لوگوں کے اعتقادات اور رسومیات کا احترام۔قومی یکجہتی کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے وطن کی مٹی سے پیار کرتے ہوں، وطن کے پہاڑ اور ندیوں سے پیار کرتے ہوں، وطن کا ہر موسم پیارا ہو، وطن کا ہر شہری پیارا ہو۔ اور اس پیار کے جذبے کو پروان چڑھانے کا کام شاعر اور ادیب سب سے زیادہ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اردو کی تاریخ دوسری زبانوں کی تاریخ سے ذرا زیادہ روشن ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ دوسری زبانوں میں وطن سے محبت نہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ روز اول سے اردو اس معاملے میں زیادہ خوش قسمت ہے۔ قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر کہا جاتا ہے۔ حیدر آباد جیسا شہر بسانے والے قلی قطب شاہ کی شاعری میں ہندوستان کی رنگا رنگی کی اتنی دلکش داستان موجود ہے کہ آج بھی دوسری زبانیں رشک کر سکتی ہیں۔ اس موضوع پر اردو میں کئی ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سلسلے وار، تاریخی تناظر میں شواہد اور مثالوں کے ساتھ بات کی گئی ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر بھی اگر اردو ناول نگاری کے حوالے سے صرف قرۃ العین حیدر کے شہرہ آفاق ناول ”آگ کا دریا“ کا ذکر کیا جائے تو ہندوستان کی ڈھائی ہزار سال کی تاریخ کے روشن پہلوؤں کو اس شاندار ڈھنگ سے پیش کیا ہے کہ ہندوستان کا ہر شہری اپنے ماضی پر نازاں ہوگا۔
جہاں تک اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے موضوع کو برتنے کا سوال ہے تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ قلی قطب شاہ سے کنول ؔ ڈبائیوی تک شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ صرف علامہ اقبال کی شاعری میں حُب وطن اور قومی یکجہتی کے حوالے سے اتنا بھرپور مواد موجود ہے کہ اس پہ کئی سیمینار منعقد کئے جا سکتے ہیں یا اخبارات و رسائل کے کئی خصوصی شمارے نکالے جا سکتے ہیں۔ جس شاعر نے یہ کہہ دیا ہو ”خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے“ تو اب اس کے بعد کہنے کو اور کیا بچتا ہے؟ اور ”سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا“ تو بچے بچے کی زبان پر کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ اقبال ؔ کی شاعری کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں رام، نانک، سوامی رام تیرتھ جیسی شخصیات پر نظمیں شامل ہیں۔ انھوں نے گائتری منتر کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ اپنی نظم جاوید نامہ میں وشوا متر ررشی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اُردو میں قومی یکجہتی کی روایت بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔
اس مختصر سی تحریر میں صرف نام لیا جا سکتا ہے۔ تفصیلی ذکر کے لئے ایک نہیں کئی جلدیں درکار ہیں۔ قلی قطب شاہ سے جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ نظیرؔ اکبر آبادی سے ہوتا ہوا نظیر ؔ بنارسی تک پہنچتا ہے۔ یہ سلسلہ طویل بھی ہے اور قابل فخر بھی۔ لیکن رونا تو اس بات کا ہے کہ غیر اُر دو والے تو خیر غیر ہیں، اپنے بھی اپنی شاندار روایات سے کافی حد تک ناواقف ہیں۔ اُردو زبان کا جو سرمایہ ہے وہ اہلِ وطن کی نظروں سے اب اُوجھل ہو رہا ہے۔ ہماری بے حسی اور بے سمتی ہمیں اس مقام پہ لائی ہے جہاں سے قوموں کا زوال شروع ہوتا ہے۔ ماتم کرنے سے زیادہ اچھا ہے کہ پہلے ہم خود اپنے سرمائے سے واقف ہوں، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ زبان اردو کے گیسو سنوارنے میں، پنڈت رتن ناتھ سرشار،ؔ پنڈت دیا شنکر نسیم ؔ،پنڈت برج نرائین چکبست،رگھو پتی سہائے فراق ؔ گورکھپوری سے لیکر شیو کمار نظام ؔ اور چندر بھان خیالؔ تک غیر مسلم خواتین و حضرات کی خدمات کسی صورت مسلمانوں سے کم نہیں ہیں۔ اسی کے ساتھ اُردو کا جو ادبی سرمایہ ہے، وہ فکشن میں ہو یا شاعری میں، اس میں قومی یکجہتی کی مضبوطی کے لئے کس قدر بھرپور مواد موجود ہے، یہ بھی دیکھنے اور دکھانے کی ضرورت ہے۔ اس بات پہ ذرا غور کیجئے کہ جو قیمتی سرمایہ ہمارے پاس ہے، اسے صرف ہم نہ دیکھیں بلکہ اہلِ وطن کو دکھائیں بھی۔ اسے ہندی، انگریزی، مراٹھی، پنجابی، گجراتی و تمام دیگر زبانوں کا سہارا لے کر دکھائیں۔ سوشل میڈیا کی خدمات لی جائیں اور اہل ِ وطن کو بار بار یاد دلایا جائے کہ اس قیمتی سرمائے میں ان کے آبا و اجداد کی خدمات بھی شامل ہیں۔ اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں ان روایات کا ذکر بہت کارگر ہوگا۔ نفرتوں کی تیز ہوا جو چل رہی ہے یا چلائی جا رہی ہے، اسے بادِ نسیم بنانے کے لئے اُردو کا استعمال کیا جائے تو یقینا نتائج بہتر ہونگے۔
(مضمون نگار جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)