Urdu News

علم و ادب کی ترقی اور نئے پرانے چراغ

دہلی اُردو اکادمی ایک انوکھے اور انوٹھے پروگرام کا انعقاد کرتی ہے جس کا نام ہے ”نئے پرانے چراغ“

 

 


 
علم و ادب کی ترقی اور نئے پرانے چراغ 
  ڈاکٹر شفیع ایوب
نئے پرانے چراغ کی علامت ایک بہت معنی خیز علامت ہے۔چراغ خود روشنی اور اُجالے کی علامت ہے۔ اور جب ان چراغوں کو نئے چراغ اور پرانے چراغ کے نام سے پکارا جائے تو معنویت اور بڑھ جاتی ہے۔ نئے چراغوں میں جوش زیادہ ہوتا ہے، لَو زیادہ تیز ہوتی ہے، لیکن زمانے کے سرد وگرم سے عموماً نا آشنا ہوتے ہیں۔ جبکہ پرانے چراغوں کی لَو بھلے ہی مدھم پڑنے لگی ہو لیکن ان پرانے چراغوں کو آندھیوں کے مقابلے جلے رہنا اور جلتے رہنے کا ہنر خوب معلوم ہوتا ہے۔ چراغ سے چراغ جلنے کا جو محاورہ ہمارے یہاں رائج ہے، اس کا بھی جواب نہیں۔ دراصل یہ جو جنگ اندھیروں کے خلاف جاری ہے، اس جنگ میں چراغ سے چراغ کا جلتے رہنا بہت ضروری ہے۔ اسی ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئے دہلی اُردو اکادمی ایک انوکھے اور انوٹھے پروگرام کا انعقاد کرتی ہے جس کا نام ہے ”نئے پرانے چراغ“ 
ہمارے ملک ہندوستان میں کُل 29ریاستیں ہیں اور کُل 19اُردو اکیڈمیاں ہیں۔ ان میں کچھ فعال اور متحرک ہیں تو کچھ قریب از مرگ۔ کچھ کوما میں ہیں۔ خیر یہ قصہ درد انگیز بھی ہے اور طویل بھی۔ اس لئے یہ قصہ پھر کبھی۔ 
سر ِ دست تو بات دہلی اردو اکادمی اور اس کے نرالے پروگرام ”نئے پرانے چراغ“ کی ہو رہی ہے۔ دہلی اردو اکادمی کا قیام 1983میں عمل میں آیا تھا۔ یعنی اپنی عمر کی 38بہاریں دیکھ چکی ہے یہ اکادمی۔ اکیڈمی کے دستور کے مطابق دہلی کے وزیر اعلیٰ اس کے چیرمین ہوتے ہیں اور تین سال کی مدت کے لئے کسی قابل شخص کو وزیر اعلیٰ اپنا نائب یعنی  وائس چیر مین بناتے ہیں۔ اکیڈمی کا سیکریٹری عموماً سرکاری افسر ہوتا ہے۔ گویا وائس چیر مین ہی اکیڈمی کی سرپرستی کرتے ہیں اور اس کے سمت و رفتار کا تعین کرتے ہیں۔ ابھی ایک سال پہلے تک  اس اکادمی کے سربراہ پروفیسر شہپر رسول جیسے ممتاز شاعر رہے ہیں۔پروفیسر شہپر رسول جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صدر شعبہ اردو رہے ہیں اور جدید غزل کے ممتاز ترین شاعروں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر قمر رئیس مرحوم، پروفیسر اختر الواسع اور پروفیسر خالد محمود جیسے دانشور اس اکادمی کے وائس چئیرمین کی حیثیت سے اس کی رہنمائی فرما چکے ہیں۔ موجودہ وقت میں دہلی کے وزیر اعلیٰ نے نہ جانے کس نا عاقبت اندیش کے مشورے سے ایک نیم خواندہ شخص کو دہلی اردو اکادمی کا وائس چیرمین مقرر کر دیا ہے۔یقیناً حکومتیں اپنے لوگوں کو ہی عہدوں پر بٹھاتی ہیں۔ لیکن میر و غالب کی دلی میں یہی اک شخص ملا تھا؟ خیر اس پہ کبھی تفصیل سے بات ہوگی۔ ابھی ذرا دہلی اردو اکادمی کے ایک بہت نایاب پروگرام کی بات کر لیں۔ 
   جہاں تک پروگرام ”نئے پرانے چراغ“کا تعلق ہے، اب اس پروگرام کو 24سال ہو چکے۔ دو دہایؤں سے زیادہ تواتر اور تسلسل کے ساتھ بلا ناغہ کسی علمی ادبی پروگرام کا انعقاد اپنے آپ میں ہی ایک بڑی بات ہے۔ 
دہلی اردو اکادمی بلا شک و شبہہ ملک کی سب سے فعال و متحرک اکادمی ہے۔ مختلف نوعیت کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ ایک زندہ اور فعال اکادمی کو زبان و ادب کے فروغ کے لئے جو کرنا چاہئے وہ دہلی اردو اکادمی کر رہی ہے۔ ہمیں اس بات سے بھی انکار نہیں کہ کچھ کمیاں اور خامیاں بھی رہی ہیں۔ کچھ اور بہتر کرنے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دہلی اردو اکادمی کی کارکردگی ملک کی دوسری اکادمیوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ کئی ایسی اکیڈمیاں ہیں جہاں سال کے گیارہ مہینے سناٹا رہتا ہے اور پھر اچانک کسی دن کوئی اشتہار نظر آئے گا۔ ماشاء اللہ کچھ ایسی بھی اکیڈمیاں ہیں جہاں پورے بارہ مہینے سناٹا ہی سناٹا رہتا ہے۔ لیکن دہلی اردو اکادمی میں علمی و ادبی سرگرمیوں سے رونق رہتی ہے۔ اس میں اکادمی کے ملازمین اور کارکنان کی بھی بڑی خدمات شامل ہیں۔ 
”نئے پرانے چراغ“  دہلی اردو اکادمی کا مقبول ترین پروگرام ہے۔ اس پروگرام میں تقریباً ساڑھے چار سو ادیب و شاعرو نقاد شرکت کرتے ہیں۔ پہلے تین دنوں تک یہ پروگرام چلتا تھا لیکن اس کی زبردست مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسے پانچ روزہ جشن میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسے ہم بجا طور پر پانچ روزہ جشن ِ اُردو کہہ سکتے ہیں۔اس کی ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ روزانہ صبح دس بجے پہلا سیشن تنقیدی و تحقیقی مقالات کا ہوتا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ عام طور پر ان اجلاس کی صدارت فرماتے ہیں۔ کبھی کبھی جامعہ ہمدرد اور ذاکر حسین کالج سے بھی کچھ اساتذہ تشریف لاتے ہیں۔ دہلی کی تین یونیورسٹیوں اور کچھ کالج کے طلبہ بھی مختلف موضوعات پر مقالے پیش کرتے ہیں۔ اساتذہ ان مقالات پر اظہار خیال کرتے ہیں جس سے نئے لکھنے والوں کی اصلاح ہو سکے۔ وہ سیکھ سکیں کہ مقالہ کیسے لکھتے ہیں اور کیسے پیش کرتے ہیں۔ 
پہلے سیشن کے بعد لنچ کا وقفہ ہوتا ہے۔ دہلی اردو اکادمی کی طرف سے تمام مہمانوں کو لنچ کرایا جاتا ہے۔ لذت کام و دہن کے بعد ایک بار پھر ہال میں سب لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اب دوپہر ڈھائی بجے سے تخلیقی سیشن کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سیشن میں عام طور پر کسی ممتاز تخلیقی فنکار کو صدارت کے لئے زحمت دی جاتی ہے۔ اس سیشن میں کچھ نئے اور کچھ پرانے لوگ ایک ساتھ افسانہ اور انشائیہ وغیرہ پیش کرتے ہیں۔ صدور حضرات ان افسانوں پر کھل کے بحث کرتے ہیں۔ شام چار بجے کے بعد چائے کا وقفہ ہوتا ہے۔ اور پھر شام ساڑھے چھہ بجے سے محفل شعر و سخن کا آغاز ہوتا ہے جس میں روزانہ پچاس کے قریب شعرا اپنا کلام سناتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اردو کے شاعروں کو ایک ساتھ ایک اسٹیج پر دیکھ کر کون بھلا کہہ سکتا ہے کہ اردو شعر و ادب کا دامن تنگ ہو رہا ہے؟ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی دوسری تمام اکیڈمیاں اس نئے پرانے چراغ سے کچھ روشنی حاصل کریں اور اردو شعر و ادب کے دامن کو وسیع کرنے میں سرگرم ہوں۔   

  (مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)     


Recommended