Urdu News

برطانیہ کے نئے وزیر اعظم ۔رِشی سونک 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ،نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

  برطانیہ کی وزیر اعظم اور کنزرویٹوپارٹی کی رہنما لرز ِبرس نے پینتالیس دن بعد اپنے عہدہ سے ۲؍ اکتوبر کو استعفیٰ دے دیا، انہوں نے پریس کانفرنس میں اس کی وجہ بتائی کہ میں وہ کام نہیں کر پا رہی تھی، جس کے لیے مجھے وزیر اعظم منتخب کیا گیا تھا، یہ سیاست میں اخلاقیات کی عمدہ مثال ہے، ہم برطانوی تہذیب وثقافت سے جس قدر بھی اختلاف رکھیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے سیاست داں اس اخلاقی اقدار سے کوسوں دور رہیں، اور ملک چاہے جہاں پہونچ جائے وہ کرسی چھوڑنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

یقیناً لرزبڑ س کے استعفیٰ کے پیچھے برطانوی سیاست میں جاری خلفشار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، جس کی وجہ سے گذشتہ چار ماہ میں برطانوی عوام نے تین وزرا اعظم اور چار وزیر خزانہ کو دیکھا ، اور پھر بھی ملکی معیشت کو مضبوط بنیاد نہیں مل سکی، اس کی وجہ سے عالمی سطح پر برطانیہ کی ساکھ کو کافی نقصان پہونچا، ایسا ممکن ہے کہ اگلے انتخاب میں کنزرویٹو پارٹی کا صفایا ہوجائے اور لیبر پارٹی بر سراقتدار آجائے، لیکن انتخاب ابھی دور ہے، اسے ۲۰۲۴ میں ہونا ہے، اور پارلیمان میں کنزرویٹو کو اکثریت حاصل ہے، اس لیے کنزر ویٹو ممبران نے ہند نزاد رشی سونک کا اگلے وزیر اعظم کے طور پر انتخاب کر لیا ہے، سابق وزیر اعظم بورس جانسن کی حمایت اورآخری مرحلہ میں پینی مورڈ انٹ کے اپنے نام واپس لینے کی وجہ سے یہ انتخاب متفقہ طور پر ہوا،بادشاہ چارلس سوم نے انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی اور وہ باضابطہ وزیر اعظم ہوگئے۔

وزیر اعظم رشی سونک برطانیہ کے سب سے کم عمر ہند نزاد سنتانویں(۵۷) وزیر اعظم ہیں، دسمبر ۱۷۸۳ میں ولیم پٹ صرف چوبیس سال کی عمر میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، رشی سونک کی عمر اس وقت بیالیس (۴۲) سال ہے، اس طرح دو سو دس (۲۱۰) سال کی مدت میں وہ سب سے کم عمر وزیر اعظم بنے ہیں، ان کے دادا گوجرا نوالہ میں پیدا ہوئے تھے جو اب پاکستان میں ہے نقل مکانی کینیاکرکے برطانیہ چلے گیے تھے، وہیں رشی سونک کی پیدائش ہوئی، انہوں نے ۲۰۰۹ میں انفورٹس کے شریک بانی نارائن درورتی کی بیٹی سے اکچھتا مورتی سے شادی کی، اکھچتا مورتی کے پاس آنجہانی ملکہ الزبتھ سے دوگنی دولت ہے، اکھچیتا کی انفوسس میں ستر کروڑ ڈالر کے حصص ہیں، جب کہ ملکہ کے پاس صرف چھیالیس کروڑ مالیت کی منقولہ وغیر منقولہ جائداد تھی، اس طرح بیوی کے واسطے سے رشی سونک برطانیہ کے مالدار ترین انسان ہیں۔

 رشی سونک کے اس عہدہ تک پہونچنے کی مدت صرف سات سال ہے، ۲۰۱۵ میں وہ یارک شایر کے رچ منڈ حلقہ سے پہلی بار پارلیامنٹ کے لیے چنے گیے تھے، اس درمیان ۲۰۱۶ میں وہ بریگزٹ کی حمایت میں تحریک چلانے کی بنیاد پر لوگوں میں مقبول ہوئے، پارٹی میں اپنے اثرات بڑھائے، ۲۰۱۷ میں دوبارہ چُن کر آنے کے بعد پارلمنٹری پرائیوٹ سکریٹری بنے، ۲۰۱۸ میں تھریسا کے دور میں پہلی بار وزیر بنے، تیسری بار ۲۰۱۹ میں منتخب ہونے کے بعد بورس جانسن کی حمایت میں آگے آئے، ۲۰۲۰ میں وزیر خزانہ بنے، کورونا کے زمانہ میں برطانیہ کی معیشت کو گرنے نہیں دیا، اور ۲۰۲۲ میں وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچ گیے۔

 اس وقت پرتگال اور ماریشش کے وزیر اعظم اور سنگاپور، سُوری نام گویا نا، سے شیل اور ماریشش کے صدر بھی ہند نزاد ہیں، اس کے علاوہ امریکہ کناڈا، نیوزی لینڈ، آئر لینڈ، جاپان ، کینیا، نیدر لینڈس، پرتگال اور بہت سارے دوسرے ملکوں میں بھی ہندوستانی نزاد بڑے عہدے ومناصب پر فائز ہیں، لیکن ہندوستانی میڈیامیں رشی سونک کا وزیر اعظم بننا اس لیے چرچا کا موضوع رہا کہ جس ملک کو انگریزوں نے دو سو سال تک اپنا غلام رکھا، وہاں ایک ہندوستانی نزاد اعلیٰ منصب تک پہونچ گیا، اسے ایک اعزاز اور فخر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کملا ہاسن بھی جب امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوئی تھیں تو ایساہی شور مچا تھا، خوشی منانا بُرا نہیں ہے، لیکن جب ہم سونیا گاندھی کو غیر ملکی کہہ کر وزیر اعظم کی کرسی تک نہیں پہونچنے دیتے ، علامہ اقبال سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا لکھنے اور ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود غیر ملکی ہیں، پشتوں سے رہ رہے یہاں کے لوگوں پر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ غیر ملکی ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے، ایسے میں ہمیں رشی سونک کے ہندوستانی نزاد ہونے پر تالی پیٹنے کا کیا جواز بنتا ہے اور اس سے ہندوستانی مسائل ومعاملات میں کیا بہتری آئے گی، یہ چرچا کا موضوع ہے۔

وزیر اعظم رشی سونک کے لیے آگے کی راہ آسان نہیں ہوگی، حالاں کہ وہ بورس جانسن کی وزارت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، جو برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد دوسرا بڑا عہدہ ہے۔۲۰۱۶ میں برطانیہ کے بریگزٹ سے نکلنے کے فیصلے ، ریفرنڈم اور اس کے نتیجے میں چار فی صد کی اکثریت سے بریکزٹ حامیوں کی جیت نے برطانوی عوام کو مسلسل تذبذب میں ڈال رکھا ہے، اور ملک تیزی سے کسادبازاری کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی منڈی میں اپنی ساکھ بچانے کے لیے اور بر طانوی پونڈ کی قیمت کو ڈالر اور یورو کے مقابل بنائے رکھنے کے لیے بھی برطانیہ کو اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کرنی پڑے گی، سست رفتار ترقی، افراط زر، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ جیسے اہم امور سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے، وہاں بادشاہت بھی طاقت کا روایتی مرکزرہے ہے، ملکہ کے انتقال کے بعد ابھی ان کے صاحب زادہ نے مسند کو سنبھالا ہی ہے، ایسے میں ان کے رویہ اورسوچ کا بھی اقتدار پر اثر پڑے گا۔

Recommended