اعجاز زیڈ ایچ
یکم؍اگست 1910جدید اردو شاعری کے بنیاد سازوں میں شمار، عظیم نظم نگار اور ممتاز شاعرن ۔ م راشدؔ کا یومِ ولادت ہے۔
ن۔م۔ راشدؔ کا اصل نام نذر محمد تھا۔ وہ یکم؍اگست 1910 کو اکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ علامہ اقبالؔ کی وفات کے بعد اردو شاعری جن شعرا کی بدولت عہد آفرین تبدیلیوں سے دوچار ہوئی ان میں ن ۔م راشدؔ کا نام بلاشبہ سرِ فہرست ہے۔
اس میں شک نہیں کہ، حالیؔ اور آزاد سے لے کر اقبال تک اور اقبالؔ سے لے کر جوشؔ‘ حفیظؔ جالندھری اور اخترؔ شیرانی تک اردو نظم نے بڑا تیز سفر کیا لیکن یہ سفر نظم نگاری کی دیرینہ روایات کے دائرے ہی میں ہوا۔ لیکن ن ۔ م راشدؔ اور ان کے ایک اور ممتاز ہم عصر میراؔ جی کے یہاں اس نظم نے ہیئت و اسلوب میں ایک ایسی تبدیلی کی بنیاد ڈالی جس نے نظم کا سانچہ ہی بدل ڈالا۔
ن۔م راشدؔ کا پہلا مجموعہ ماورا 1941میں شائع ہوا تو گویا یہ ٹھہرے ہوئے تالاب میں ایک پتھر کی مثال ثابت ہوا۔ راشدؔ نے اپنی نظموں میں نہ صرف یہ کہ نظم آزاد کا کامیاب تجربہ کیا بلکہ مغرب کے شعرا بالخصوص انگلستان اور فرانس کے جدید شعرا سے متاثر ہو کر نظم نگاری کے فن کو نئے طریقوں سے برتنے کی کوشش کی۔
یہ نظم سادہ اور بیانیہ شاعری سے خاصی مختلف تھی اور اس نظم میں افسانوی اور ڈرامائی انداز کے جدید اسالیب بدرجہ اتم موجود تھے۔ ابتدا میں ن۔م راشدؔ اور میراؔ جی‘ دونوں ہی شدید تنقید کا نشانہ بنے لیکن انہوں نے جو بیج بویا وہ بہت جلد تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا۔ خود راشدؔ نے ماورا کے بعد اردو شاعری کو کئی یادگار مجموعے عطا کیے جن میں ایران میں اجنبی‘لا= انسان اور گمان کا ممکن شامل ہیں۔
ان کے علاوہ دوسرے شعرا نے بھی غیر محسوس طریقے سے ان کا اتباع کیا اور یوں اردو شاعری کے صحن میں نئے دریچے کھلتے چلے گئے۔ ن۔م راشدؔ نے اپنی زندگی مختلف ممالک میں بسر کی۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ لندن میں مقیم تھے۔جہاں وہ 9؍اکتوبر 1975 کو وفات پاگئے۔
ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی لاش کو نذر آتش کردیا گیا۔وہ زندگی بھر دنیا کو چونکاتے رہے تھے اور موت کے بعدبھی اپنی یہ عادت ترک نہ کرسکے۔
معروف شاعر ن ۔م راشدؔ کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔
ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا
مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملا
حیاتِ شوق کی یہ گرمیاں کہاں ہوتیں
خدا کا شکر ہمیں نالۂ رسا نہ ملا
ازل سے فطرت آزاد ہی تھی آوارہ
یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
یہ کائنات کسی کا غبارِ راہ سہی
دلیلِ راہ جو بنتا وہ نقشِ پا نہ ملا
یہ دل شہید فریبِ نگاہ ہو نہ سکا
وہ لاکھ ہم سے بہ اندازِ محرمانہ ملا
کنارِ موج میں مرنا تو ہم کو آتا ہے
نشان ساحلِ الفت ملا ملا نہ ملا
تری تلاش ہی تھی مایۂ بقائے وجود
بلا سے ہم کو سرِ منزل بقا نہ ملا
═══════════════════
تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا
دل میں ترے وہ ذوقِ محبت نہیں رہا
پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے
تو ہی حریفِ ذوقِ سماعت نہیں رہا
آئیں کہاں سے آنکھ میں آتشِ چکانیاں
دل آشنائے سوزِ محبت نہیں رہا
گل ہائے حسنِ یار میں دامنِ کشِ نظر
میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا
شاید جنوں ہے مائلِ فرزانگی مرا
میں وہ نہیں وہ عالمِ وحشت نہیں رہا
ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگِ ناگہاں
میں اب اسیر گردشِ قسمت نہیں رہا
جلوہ گہہِ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج
لو میں رہین زحمتِ خلوت نہیں رہا
کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے
سر میں اگر وہ شوقِ شہادت نہیں رہا