مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بھاجپا جب کسی ریاست میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی تو وہ آپریشن لوٹس شروع کر دیتی ہے ، لوٹس یعنی کنول اس کا انتخابی نشان ہے، اس مناسبت سے اسے آپریشن لوٹس کہتے ہیں، اس آپریشن میں سب سے پہلے دیگر سیاسی پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو خریدا جاتا ہے، ایک ایک ممبر کی قیمت لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوتی ہے ، کئی تو روپے لینے کے بعد وزارت کی شرط بھی لگاتے ہیں،چنانچہ انہیں اقتدار کی تبدیلی میں روپے کے ساتھ وزارت کی کرسی بھی مل جاتی ہے ، دوسری پارٹیاں بھی موقع کی تاک میں رہتی ہیں، لیکن جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے روپے دے کر بھاجپا والے ارکان کو خریدتے ہیں اور حکومتیں گرائی جاتی ہیں، اس کی مثال دوسری پارٹیوں میں کم دیکھا جاتا ہے۔ گو دوسری پارٹیوں میں بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
مہاراشٹر میں ’’مہااگاری‘‘ کی سرکار کو گرانے کے لیے جو داؤ بھاجپا نے چلا وہ کامیاب ہو گیا او روہاں شیو سینا کے ایک گُٹ نے بھاجپا کی مدد سے شنڈے حکومت قائم کرادی ، سابق وزیر اعلیٰ کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا، جو یقینا ذلت آمیز تھا، لیکن اب عزت وذلت کی بات قصۂ پارینہ ہے، اب صرف کرسی چاہیے، اس کرسی کے چکر میں سابق مرکزی وزیر کو ریاستی وزیر بننے، راجیہ سبھا کے ممبر کو ودھان پریشد کے ممبر بننے اور سابق وزیر اعلیٰ کو نائب وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی عار اور شرم محسوس نہیں ہوتی، اب اس ملک کو صرف یہ دن دیکھنا باقی ہے جب صدر جمہوریہ بھی سبکدوشی کے بعد پارلیمانی یا ریاستی سیاست میں سر گرم حصہ داری ادا کرنے لگیں گے ۔
بھاجپا چاہتی ہے کہ ساری سیکولر حکومتوں کو آپریشن لوٹس کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کردے اور اپنی حکومت قائم کرے، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دعویٰ کیا ہے کہ بھاجپا ان کی حکومت گرانے کے لیے آٹھ سو کروڑ روپے خرچ کرنے کو تیار ہے اور اس نے عاپ کے چالیس اراکین اسمبلی کو خریدنے کے لیے بیس (۲۰)، بیس (۲۰) کروڑ روپے کی بولی لگا دی ہے۔
آپریشن لوٹس ان دنوں جھارکھنڈ میں چل رہا ہے ، پہلے کانگریس کے تین ارکان اسمبلی کو موٹی رقم دے کر آسام بھیجا جا رہا تھا تاکہ آپریشن کا تمام خاکہ آسام کے وزیر اعلیٰ ان دونوں کو سمجھائیں اور وہ واپس آکر ہیمنت سورین کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ دیں، آسام جانے کے لیے انہیں کولکاتہ سے گذرنا تھا اور وہاں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے، اقتدار خاتون آہن ممتا بنرجی کے ہاتھ ہے، چنانچہ یہ دونوں ہوڑہ میں گرفتار ہو کرمنی لانڈرنگ کیس میں ماخوذ ہو گیے، یہ اسکیم ناکام ہوتی تو بھاجپا نے ہیمنت سورین کو ہٹانے کے لیے انہیں نا اہل قرار دلوادیا، ساری تیاری مکمل ہے، لیکن ہیمنت سورین بھی اس باپ کے بیٹا ہیں، جس نے جھارکھنڈ کو وجود میں لانے کے لیے لمبی لڑائی لڑی تھی، انہوں نے کانگریس اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ارکان کو کھونٹی گیسٹ ہاؤس میں لے جا کر رکھا اور اقتدار کی بقا کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا، اور پھر سارے ارکان رانچی لوٹ آئے ،اب دوبارہ انہیں رائے پور منتقل کیا گیا ہے تاکہ وہ بکری منڈی سے دور رہیں، اسمبلی میں دونوں پارٹیوں کے جوارکان ہیں، اگر وہ متحد رہتے ہیں، تو ہیمنت سورین کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنا کر اتھاڈ کی حکومت کو بچایا جا سکتا ہے ، لیکن سیاست اور کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔