اعجاز زیڈ ایچ
آج – 27؍جنوری 1976پدم شری اعزاز یافتہ،غیرمنقسم پنجاب کے ممتاز شاعر جوؔش ملسیانی صاحب کی برسی ہے۔
پنڈت لبھو رام دنیائے ادب میں جوش ملسیانی کے نام سے جانےگئے ۔ یکم؍فروری 1884 کو ملسیان،جالندھر میں پیدا ہوئے ۔دادا نہال چند گڑ کا کاروبار کرتے تھے ۔
والد پنڈت موتی رام بھی ان پڑھ تھے ۔پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ان کی مٹھائی کی دکان تھی ۔والدہ نے بڑی محنت و مشقت سے جوش کو تعلیم دلوائی ۔انہوں نے 1897میں ورنیکلر مڈل کا امتحان پاس کیا ۔
جالندھر کے کئی اسکولوں میں درس و تدرس کا فریضہ انجام دیا ۔ خانہ نشینی کے ایام میں شعرو شاعری اور شطرنج سے شغل فرماتے تھے ۔شطرنج کے متعلق ایک بیاض بھی مرتب کی ۔
شعر گوئی طالبعلمی کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھی ۔ مدتوں کلام پر اصلاح نہیں لی ۔جن دنوں وکٹر ہائی اسکول جالندھر میں پڑھاتے تھے کہیں سے داغ کے مشہور شاگردسید شبر حسن نسیم بھرتپوری کا دیوان ہاتھ لگ گیا ۔ اس کے بعد زبان اور فن کی کوئی بھی حل طلب بات ہوتی تو خط کے ذریعے ان سے پوچھ لیتے ۔انہی کے توسط سے داغ کی شاگردی بھی اختیار کی ۔
نثر میں ان کی سب سے اہم تصنیف دیوان غالب مع شرح 1950 ہے ۔ایک زمانے میں اقبال کے کلام پر ان کے مضامین کا ایک سلسلہ ہفتہ وار پارس لاہور میں جراح کے قلمی نام سے چھپا۔
ماہنامہ آجکل کی ادارت بھی کی ۔1971ء میں ان کو پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا ۔ پنڈت بال مکند عرش ملسیانی ان کے اکلوتے بیٹے تھے ۔
ان کی تصانیف میں ’بادۂ سرجوش‘، ’جنون وہوش‘، ’فردوس گوش‘ (منظومات وغزلیات)، ’نغمۂ سروش‘ (رباعیات)، ’دستورالقواعدفارسی‘،’مکتوبات جوش‘اور’منشورات جوش‘ قابل ذکر ہیں۔ ٢٧؍جنوری ١٩٧٦ء کو نکودر میں انتقال ہوگیا۔
ممتاز شاعر جوش ملسیانی کی برسی پر منتخب کلام خراجِ عقیدت۔۔۔
رہا پیشِ نظر حسرت کا باب اول سے آخر تک
پڑھی کس نے محبت کی کتاب اول سے آخر تک
اشارہ تک نہ لکھا کوئی اس نے ربط باہم کا
بہت بے ربط ہے خط کا جواب اول سے آخر تک
میسر خاک ہوتا زندگی میں لطف تنہائی
رہے دو دو فرشتے ہم رکاب اول سے آخر تک
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
وطن کی سر زمیں سے عشق و الفت ہم بھی رکھتے ہیں
کھٹکتی جو رہے دل میں وہ حسرت ہم بھی رکھتے ہیں
ضرورت ہو تو مر مٹنے کی ہمت ہم بھی رکھتے ہیں
یہ جرأت یہ شجاعت یہ بسالت ہم بھی رکھتے ہیں
زمانے کو ہلا دینے کے دعوے باندھنے والو
زمانے کو ہلا دینے کی طاقت ہم بھی رکھتے ہیں