Urdu News

پاکستان کے لیے جشنِ آزادی یا ماتمِ آزادی؟

پاکستان کے لیے جشنِ آزادی یا ماتمِ آزادی؟

آفتاب سکندر

متحدہ ہندوستان جس سے علیحدگی کے بعد فقط ہندوستان بنادیا ہے اس میں ایک قانون پاس ہوا کہ جنگلی حیات کو قید کرکے پالتو بنانا جرم ہے جس پر سزا ہوگی۔ اس کے بعد لوگوں نے اپنے پالتو جانوروں کو جنگل کی زینت بنا دیا. ان پالتو جانوروں میں شیر بھی تھے وہ شیر جو جنگل کے بادشاہ تھے ان کو کتوں نے اپنا شکار بنالیا. تحقیق پر پتہ چلا کہ وہ قید میں رہ کر پالتو ہوگئے تھے شکار کرنا بھول گئے تھے اس لیے اُن پر کتے حاوی ہو گئے۔ اس لیے اب اُنہیں قید ہی آزادانہ زندگی محسوس ہوتی تھی جس میں پنجرے میں بیٹھے گوشت مل جاتا تھا۔

کچھ یہی حال مملکتِ خداداد پاکستان کی عوام کا ہے جو غلام در غلام ہونے کے باوجود بھی خود کو آزاد قوم سمجھتے ہیں۔ دورِ طالب علمی میں ہمارے ایک اردو کے اتالیق کہتے تھے کہ آپ نے چودہ اگست کو اسکول آنا ہے کیونکہ اپنی آزادی کا دن منانا آزاد قوموں کا شیوہ ہے یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ ایک آزاد قوم ہیں یا نہیں۔ یعنی آزادی کا دن منا کر ہم آزاد قوم بن جائیں گے۔

کیا ہم آزاد قوم ہیں فی البدیہہ اَن پڑھ کسان ہو، دو کان دار ہو، ریڑھی بان ہو، مزدور الغرض کوئی بھی ہو وہ یہ کہتے ہوئے ملے گا جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا ہے یہ سرحد کی بجائے حد پار کرنے والوں کی کارستانی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ جو کچھ کرتی ہیں ایجنسیاں کرتی ہیں کیوں کرتی ہیں، کس کی پیروی میں کرتی ہیں، امریکہ کی، تو ہم غلام ابن غلام ہیں۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق امریکی کہتے ہیں ہماری اپنی حکومت چننے والے اسرائیلی ہوتے ہیں۔

ویسے یہ جو جشنِ آزادی ہے جس کی تیاری ہم دھوم سے کرتے ہیں یہ ہمیں دلوائی کس نے تھی؟ ہم نے کیسے حاصل کی تھی؟سنا ہے یہ بِہار، یوپی، حیدر آباد کے نوابوں کی شرارت تھی، ہاں مگر کیوں؟ کیوں کہ جمہوریت کے آنے سے ہندوؤں پر مسلط نوابی ڈگمگانے کا خطرہ تھا۔تو کیا ان کی مجال تھی کہ وہ یہ کر پاتے، نہیں ہمیشہ کی طرح انہوں نے بھی فرنگیوں سے امداد وصول کی اور ملنے والی وہی امداد آگے مسلم لیگ کو مہیا کرتے رہے، اس جشنِ آزادی کے لیے سب سے بڑا ہتھیار تھا دو قومی نظریہ۔ یعنی ایک جگہ پر دو قوموں کا آباد ہونا مُحال ہے۔ اس لیے ہمیں علیحدہ وطن دیا جائے جہاں ہم ایک قوم بن کر رہ سکیں۔یہ اور بات ہے تقریباً 25 سال بعد ہم ایک سے دو قوم بن گئے اور ٹکے والے آج خرم ہیں کہ ان سے علیحدہ ہو کر خوشحال ہوگئے ہیں۔

اس آزادی کی سب سے بڑی آواز قائداعظم تھے جنھیں کافرِ اعظم کا خطاب بھی ملا۔ وہ نظریہ پاکستان کی اساس اسلام کے قائل تھے البتہ خود زرتشت عورت سے بیاہ رچا کر زندگی بسر کرتے رہے۔قائد اعظم شیعہ تھے اور پاکستان کے سب سے بڑے فرقے بریلوی کے جید عالم شاہ احمد رضا خان صاحب کافتوی موجود ہے۔

’’اگر ایک طرف شیعہ ہو، دوسری طرف کتا ہو، پانی ایک کو پلایا جاسکتا ہے اور بس ایک کی ہی جان بچائی جاسکتی ہے تو کتے کو پانی پلا کر جان بچالینا شیعہ کو پانی نہ پلانا‘‘۔

اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں آزادی دینے والے قائد اعظم کی کتنی تعظیم کرنی ہے۔قائداعظم کی مخالفت اس وقت کے جید علمائے کرام نے کی جن میں مولانا حسین مدنی، عبدالکلام آزاد، سہروردی اور مودودی صاحب شامل تھے۔ مولانا مودودی فرماتے تھے کہ پاکستان بن گیا تو ہم چھوٹی غلامی سے نکل بڑی غلامی کی طرف جائیں گے۔ آج پچھتر سال گزرنے کے بعد جب پاکستان کا بچہ بچہ گواہی دے رہا ہے کہ یہاں سرحد کے رکھوالے حکومت لاتے ہیں تو سوچیں کیا مودودی صاحب درست نہیں کہتے تھے؟

ابوالکلام آزاد نے تو گریہ زاری کی تھی قیام پاکستان پر اور یہ کہہ کر ہندوستان میں سکونت کو فوقیت دی کہ پاکستان میں کافر کہلا کر مرنے سے بہتر ہے یہیں مسلمان ہونے کے طعنے سہہ لوں۔

آج آپ بتائیں پچھتر سال بعد پاکستان میں گورنر پنجاب کے قتل پر جشن نہیں منایا گیا۔سری لنکا والے شہری کی ہلاکت ہو یا مردان یونیورسٹی والے مشال کا قتل۔ کیا اس کے بعد آپ کو ابو الکلام آزاد کی بات درست معلوم نہیں ہوتی؟

مولانا حسین مدنی نے 1945 عیسوی میں قائد اعظم سے استفسار کیا کہ پاکستان کو چلانے کی کوئی جامع حکمت عملی یا منصوبہ بندی بھی ہے جس پر قائداعظم نے کہا بنا تو لیں چلا بھی لیں گے۔

آج پچھتر سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیے کیا آپ کو لگتا ہے کہ جس طرح سے پاکستان چل رہا ہے اس طرح سے چلنا قابل قبول ہے۔ خضر حیات ٹوانہ کانگریسی تھے۔ ان کے ملازم نے ان سے شکوہ سنج ہوا کہ آپ پاکستان کی مخالفت کررہے ہیں۔ خضر حیات ٹوانہ جواب دیا تھا کہ یہ پاکستان بنا تو لیں گے لیکن پاکستان ان سے نہیں چلے گا۔وہ بزرگ آج بھی حیات ہیں ضلع خوشاب کے علاقے مٹھہ ٹوانہ میں آج بھی خضر حیات ٹوانہ کی سیاسی بصیرت کے گُن گاتے ہیں۔

جشنِ آزادی پر پاکستان کے حصول کے لیے قربانیوں کی بات کرتے ہیں۔ حالانکہ فسادات میں ہوئے نقصان کو قربانی کا نام دینا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ جیسے مسلمین کے لیے مدینہ منورہ مکرم ہے اسی طرح سکھوں کے لیے ننکانہ صاحب مکرم ہے تو وہ بضد تھے کہ ہمیں یہاں سے بے دخل نہ کیا جائے۔ اس پر فسادات ہوئے جن میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام ہوا وہیں سکھوں کا بھی قتل عام ہوا۔شر انگیزی میں ہونے والا نقصان قربانی نہیں ہے وہ وہ کوتاہی ہے۔ہندوؤں کی دختران کی بھی آبروریزی کی گئی ،سکھوں کی بیٹیوں کی بھی عصمت دری کی گئی، مسلمین کی بنات کو بھی بے آبرو کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟

جشنِ آزادی میں علامہ اقبال کا خواب قابلِ ذکر ہوتا ہے جس کے متعلق شاعر مشرق نے انور مقصود کے خواب میں ہزار بار کہا ہے کہ میں نے یہ خواب نہیں دیکھا۔اس کے متعلق ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب بھی کہہ چکے ہیں خدارا اس خط کا ذکر بھی کر دیا کریں جو والد صاحب نے انگریزوں کو لکھا تھا۔ بہرکیف علامہ صاحب کے بیٹے نے یہ بھی کہہ رکھا ہے غازی علم الدین والا قصہ فقط مذہبی کارڈ تھا اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی گہرائی میں جائیں تو سمجھ آتی ہے کہ دو قومی نظریہ ہی مذہبی کارڈ تھا۔

اب ایک بات واضح سمجھنا ہے کہ آزادی کی قدر و قیمت بہت ہے مگر آزادی ہمیں نہیں ملی بلکہ ہم برطانیہ کی قید سے نکل کر امریکہ کی قید میں آئے ہیں۔ اب حقیقی آزادی والوں کے پیچھے نہیں بھاگنا کہیں ایسا نہ ہو وہ کسی اور کی غلامی میں لے جائیں۔ منافقت کا اندازہ لگائیں ہم دو قومی نظریہ کے قائل ہیں جب کہ دیکھا جائے تو امریکہ، یورپ، آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی کبھی بھی پاکستان نہیں لوٹنا چاہتے۔وہیں رہنا چاہتے ہیں۔ کیا عیسائیوں کے ساتھ رہتے ہوئے دو قومی نظریہ تیل لینے چلا جاتا ہے، چھوڑو ہم منافق ہیں ہمیں تو آزادی کیا جمہوریت کیا ہر شے چھ نمبر ملی ہے۔

Recommended