Urdu News

پاکستان: اسٹیبلشمنٹ اورسیاست دانوں کی یاریاں

آفتاب سکندر

ایوب خان کو امرتسر میں ہونے والے فسادات پر قابو پانے کی ذمہ داری سے سونپی گئی تو وہاں جا کر ایوب خان نے کسی کی محبوبہ پر ڈُورے ڈالنا شروع کر دئیے اور فسادات پر توجہ مرکوز نہ کی۔

اسی نااہلی پر قائداعظم ایوب خان سے خفگی کا شکار تھے قیوم نظامی اپنی کتاب قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم جان چکے تھے کہ ایوب خان سے سیاست کی بُو آتی ہے۔اسی لیے ایوب خان کا ٹرانسفر مشرقی پاکستان  ڈھاکہ کردیاجس پر ایوب خان بھی پریشان تھے اور اپنے ایک دوست برگیڈیر سے شفارس بھی کروائی جو قبولیت کا شرف حاصل نہ کر پائی۔

اسی ایوب خان کو لیاقت علی خان نے سینئر ترین جنرل افتخار پر فوقیت دے کر جنرل بنایا جس نے بعد میں اسی مملکت خداداد پاکستان کو یرغمال بنا کر پہلا مارشل لاء نافذ کیا۔

جنرل ایوب کے دورِ حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیر خارجہ کام کرتا رہا اور کہنے والے کہتے ہیں کہ یہی بھٹو جنرل ایوب خان کو ڈیڈی بھی کہتا تھابعدازاں یہی بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے آشیر باد سے عوامی لیڈر بنا اور اُسی اسٹیبلشمنٹ کے کارندے ضیاء الحق کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھا۔پھر اسی جنرل ضیاء الحق نے اپنے چہیتے نواز شریف کو نوازا، اس پر برکت والا ہاتھ رکھا۔ جب آم کی پیٹیوں سمیت پھٹا تو یہی نواز شریف عوامی قائد بن کر اُبھرا۔

پھر اسی عوامی نمائندے نے منصبِ اقتدار پر بیٹھ کر کور کمانڈر منگلہ پرویز مشرف کی تعیناتی بطور آرمی چیف کی اُس وقت میرٹ کی دھجیاں اُڑائیں۔پھر ہم نے دیکھا کہ اُسی پرویز مشرف نے آئین کو سبوتاژ کیا اور نواز شریف کے جدہ بھیج کر حکمرانی کی۔

یہی جنرل پرویز مشرف تھا جو کہتا تھا کہ پاکستان کو اب ایک تیسری قوت کی ضرورت ہے۔ بہرکیف پھر وقت گزرا وہی نواز شریف کہتا ہے کہ جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ نے 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کرکے سلیکٹڈ کو مسندِ اقتدار پر بٹھایا۔اب جب 2022 میں وہی سلیکٹڈ کُرسی سے اُتر چکا ہے تو نواز شریف کے بردارِ اصغر شہباز شریف مسندِ اقتدار پر فائز ہیں اب وہ سلیکٹڈ کہتا پھرتا ہے کہ نیوٹرل ہوگئے، مجھے مار ڈالا۔

اس ساری کہانی میں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ چوکیدار کے ساتھ نام نہاد سیاسی قائدین کا بھی قصور ہے؟

کیا انہوں نے ان جرنیلوں کے اپنے مفادات کی خاطر سیاست نہیں کرنے دی۔ جرنیلوں کو اپنی سیاست کے لیے استعمال نہیں کیا۔کیا تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے؟ نہیں ناں

ذرا نہیں پورا سوچئے کیوں کہ سوچنے پر نہ تو ٹیکس لگتا ہے اور نہ ہی گناہ ملتا ہے۔

Recommended