آفتاب سکندر
ہرن یکشپو ہندو راجہ تھا جس کو دیوتاؤں نے موت سے بَری کردیا۔یہ حکم دیا کہ نہ وہ زمین پر مرے گا نہ گھر اندر مرے گا نہ باہر۔ نہ انسان مارے گا اُس کو نہ حیوان۔اس طرح ہرن یکشپو ظالم اور جابر بن گیا۔اُس کو پتہ چل گیا کہ اس کو موت نہیں آنے والی۔اس نے سوچا کہ موت نہیں آئے گی اس لئے وہی بھگوان ہے اور جنتا سے اپنی پوجا کروانے لگ گیا۔ ساتھ ہی ساتھ ظلم کے پہاڑ توڑنے لگا۔پرہلادا (پھلاج) ہرن یکشپو کا بیٹا تھا۔
اس نے اپنے باپ کی پوجا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر ہرن یکشپو نے اپنی بہن ہولیکا کو حکم صادر کیا کہ وہ اس کو فنا کردے۔ ہولیکا کو آگ کچھ نہیں کہتی تھی۔وہ پرہلادا کو ساتھ لے کر آگ میں کود گئی۔ مگر قصہ عجب یہ ہوا کہ آگ نے ہولیکا کو جلا کر راکھ کر دیا جبکہ پرہلادا محفوظ رہے۔
کہتے ہیں کہ اپنے آخری وقت میں ہولیکا تائب ہوگئی اور اُس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جس پر اس نے پرہلادا سے معافی مانگ لی اور پرہلادا نے اس کو کہا کہ تمھارا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور یوں ہولی کا تہوار منانے کی روایت پڑگئی۔جو آج بھی موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ماہِ مارچ کے اندر جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور ہولیکا کے نام کو زندہ کیا جاتا ہے۔اس تہوار کی ابتداء ملتان سے ہوئی۔جہاں ملتان اولیاء کے مزارات کا گڑھ ہے وہیں وہ اپنے اندر ہندوؤں کے اعلیٰ ترین ثقافتی ورثہ کو چھپائے ہوئے ہے۔
پرہلادا کا مندر ملتان میں آج بھی موجود ہے مگر خستہ حالت میں 1992 عیسوی میں اس احسان فراموش قوم نے اپنے ہی ثقافتی کلچر کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے منہدم کردیا جو اپنے آپ میں ایک انتہائی شرمناک بات ہے۔مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہم لوگوں نے بہت سے مقامات کو اسی طرح ختم کردیا جس پر ہم آج رشک کرتے ہیں افسوس کرنے کی بجائے۔ بہر حال اس تہوار کی یادیں آج بھی ملتان کے دل میں چھپی ہوئی ہیں۔
جب ہرن یکشپو کے مظالم بڑھ گئے تو بالآخر وِشنو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے ہرن یکشپو کو ختم کر دیا دیوتاؤں کے دئیے گئے حکم کی حکم عدولی کے بغیر ہرن یکشپو کو ختم کیا گیا۔وشنو نے حکم دیا کہ وہ شیر اور انسان کا روپ دھار کر (نہ انسان نہ حیوان) اور گود میں اُٹھا کر (نہ زمین پر نہ آسمان پر) گھر کی دہلیز پر(نہ گھر کے اندر نہ گھر باہر) اُس کو چیر پھاڑ دے یوں اُس کو اسی طریقہ کار کی بنیاد پر نیست و نابود کیا گیا۔جس سے ہرن یکشپو بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور دیوتاؤں کا مان سمان بھی نہ ٹوٹا۔
اسی لیے تہوار کو مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے اور نیلے رنگ کو وشنو کے کارن سے تعبیر کرکے روحانیت کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پیلے رنگ کو خوراک کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اسی طرز پر دوسرے رنگوں کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ہندوؤں کے نزدیک یہ تہوار تمام عالمِ انسانیت کے لیے ہے۔یہ تہوار ہمیں ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے اور ہمارے لیے بھائی چارے کی علامت بنتا ہے۔
یہ تہوار مذہبی لحاظ سے ہندو تہوار ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی لحاظ سے ملتانی تہوار بھی ہے جو کہ ہمارے ثقافتی کلچر کے لئے اہمیت کا حامل ہے اس لیے ہر پاکستانی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ثقافتی ورثہ کے متعلق جانکاری رکھتے ہوئے اس تہوار کو جوش و خروش کے ساتھ منائے اور اپنی تہذیب کو زندہ رکھے۔