آفتاب سکندر
سینکڑوں ایکڑ اراضی کے مالک جاگیردار ملک آڈھا خان صاحب کے پوتے ملک شیر محمد آڈھے خیل کے ہاں 4 اپریل 1944 عیسوی کو اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے کا جنم ہوا۔چونکہ ملک شیر محمد آڈھے خیل کے دادا بہت بڑے زمیندار اور جاگیر دار تھے اُن کے نام پر خیلی چلی آرہی تھی تو اسی محبت میں ملک شیر محمد آڈھے خیل نے اپنے پسرِ اصغر کا نام آڈھا خان رکھ دیا۔ اللہ رب العزت نے ان کے اس بیٹے کو وہ عزت دی کہ سندھ سے ہند تک آڈھا خان صاحب کا نام چمکنے لگا اور انہوں پورے پاکستان میں بلکہ کئی ملکوں میں اس خیلی کا نام روشن کردیا۔
الحاج ملک استاد آڈھا خان آڈھے خیل کا نام اُن کے پردادا کے نام پر تھا. آپ نے شاعری کا آغاز 1960 عیسوی میں شروع کیا جب آپ ہشتم جماعت کے طالب علم تھے۔آپ نے اس کے بعد دوہڑے کی صنف میں بہت سے دوہڑے اشعار لکھے۔ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے بطور اتالیق اپنی خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔ درس و تدریس کے شعبے میں نام کمایا. آپ کی شہرت کا عالم یہ تھا کہ 60 عیسوی کی دہائی میں جب شوشل میڈیا تو دور الیکٹرانک میڈیا نامی شے کا نام نہیں تھا فقط پرنٹ میڈیا کا دور تھا اُن وقتوں میں آپ پر ایک اخبار نے آپ پر پورا صفحہ چھاپ دیا۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی صاحب کو جب آپ کے متعلق معلوم ہوا تو انہوں نے آپ کے شہر گنجیال شریف میں حاضری دی اور آپ سے آپ کا کلام پڑھنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے خان صاحب کو بلا معاوضہ کلام پڑھنے کی اجازت دے دی۔الحاج ملک استاد آڈھا خان صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی تھی کہ’’ میں اپنی ذات کی تسکین کے لیے شاعری کرتا ہوں آج تک کلام پڑھنے کا معاوضہ وصول نہیں کیا،،
آپ کی خود داری کا یہ عالم تھا کہ عطاء اللہ عیسی خیلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں آپ سے متعلق ایک بات کہی کہ میرے حلقہ احباب میں موجود افراد نے مجھ سے بہت سے کام لیے استاد آڈھا خان صاحب واحد شخصیت ہیں جنھوں نے مجھ سے کبھی اپنے ذاتی کام کے لیے نہیں کہا۔
آپ کی شاعری میں تصوف، صوفی ازم کی بہت جھلک تھی۔آپ نے بہت نام کمایا. الحاج ملک استاد آڈھا خان خواجہ غلام فرید سے بہت متاثر تھے. یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ مشہور و معروف کلام
جانی رات رہ پوگالہیں کریسوں
یہ کلام خواجہ غلام فرید کا نہیں بلکہ استاد آڈھا خان صاحب کا ہے۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ جب وہ آپ کا کلام پڑھتے تو اُن پر وہی کیفیت طاری ہو جاتی جو خواجہ غلام فرید صاحب کا کلام پڑھتے ہوئے طاری ہوتی۔
آپ 1983 عیسوی میں مدینہ منورہ شریف چلے گئے وہاں پر آپ نے تین سال قیام کیا اور آپ 1986 عیسوی کو واپس چلے آئے. وہاں قیام کے دوران آپ نے مشہورِ زمانہ کلام لکھا
میرے آقا ربی رحمت تے برکت دا انعام ہووی
جب آپ عمرہ کررہے تھے تو آپ نے روزہ رسول کی جالی کو چومنے کی خواہش کی. جس پر وہاں نصب نجدی نے اس کو بدعت کہتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔ چونکہ آپ جدی پُشتی بریلوی خاندان سے تعلق رکھنے والے تھے آپ نے پھر حضور نبی کریم کی خدمت اقدس میں یہ کلام لکھا اور اس نجدی نے آپ کو جالی مبارک کو چومنے دیا۔یوں تو ایسے کئی واقعات سے آپ کی حیات بھرپور رہی۔
آپ کے کلام کے تین مجموعہ شائع ہوئے.,, راز و نیاز،، اور,, رموز عشق،،. آپ نے سسی پنوں کا قصہ لکھا جس کو بے پناہ شہرت ملی۔سوہنی مہیوال کا قصہ بھی لکھا۔اس کے علاوہ یہ درود بر حبیبِ خدا جس کا ذکر اوپر کیا ہے یہ بھی کافی متاثر کن تھا۔ آپ کے دوہڑے اور سارا کلام ہی لاجواب تھا۔ میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ میں نے جب ایک سندھی کے سامنے آپ کا کلام پڑھا تو وہ بیچارہ ادب کے مارے کھڑا ہو گیا کہ واقعی یہ پُرتاثیر کلام ہے۔ راقم کے والد محترم نے بھی بحرین میں فراز احمد مرحوم کے سامنے استاد آڈھا خان صاحب کا کلام پڑھا۔ جس کو سننے کے بعد احمد فراز مرحوم نے استاد آڈھا خان صاحب بات کرنے کی خواہش کی تھی اور فون پر آڈھا خان صاحب سے بات بھی کی۔ 4 مئی 2012 بروز جمعہ مبارک کو اُن کا وصال ہوا تھا۔ اللہ رب العزت ان کی حضور آقائے دوجہاں کے صدقے مغفرت فرمائے۔