Urdu News

رومان اور انقلاب کا شاعر: اسرارالحق مجاز

شاعر اسرارالحق مجاز

اعجاز زیڈ ایچ

آج5؍دسمبر 1955معروف ترقی پسند شاعر،رومانی اور انقلابی نظموں کے لیے مشہور، اپنے دورِ حاضر کے محبوب شاعر” اسرار الحق مجازؔ صاحب “ کا یومِ وفات ہے۔

اسرار الحق نام اور مجازؔ تخلص تھا۔ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۱ کو ردولی، ضلع بارہ بنکی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جج کے عہدے پر فائز تھے ، اس لیے ان کا قیام زیادہ تر لکھنؤ میں رہا۔ ۱۹۳۶ میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد کچھ دنوں آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں اور کچھ عرصے بمبئی کے محکمۂ اطلاعات میں ملازم رہے۔ ہارڈنگ لائبریری، دہلی سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے۔

 ابتدا میں فانی بدایونی نے ان کی چند غزلوں پر اصلاح دی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے ذوق کو خود رہبر بنایا۔ وہ دور حاضر کے محبوب شاعر تھے۔ مجازؔ شراب کے بے حد عادی تھے۔

 کثرتِ شراب نوشی سے ۵؍دسمبر ۱۹۵۵ء کو انتقال کرگئے۔ کسی نے مجاز کو شیلے کہا اور کسی نے ان کو کیٹس، کسی نے ان کو بلبل رنگیں نوا کہا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ آہنگ‘‘ کے نام سے ۱۹۳۸ میں طبع ہوا۔

 اس میں کچھ نظموں کا اضافہ کرکے ۱۹۴۵ء میں ’’ شبِ تاب‘‘ اور پھر مزید اضافے کے بعد۱۹۴۹ء میں ’’ سازِ نو ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:24

رومانی شاعر اسرار الحق مجازؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت پیش خدمت ہے۔

بس اس تقصیر پر اپنے مقدر میں ہے مر جانا

تبسّم کو تبسّم کیوں نظر کو کیوں نظر جانا

رخصت اے ہم سفرو شہرِ نگار آ ہی گیا

خلد بھی جس پہ ہو قرباں وہ دیار آ ہی گیا

سازگار ہے ہم دم ان دنوں جہاں اپنا

عشقِ شادماں اپنا شوقِ کامراں اپنا

شوق کے ہاتھوں اے دلِ مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا

عشق  تو رسوا ہو ہی چکا ہے  حسن بھی کیا رسوا ہوگا

پھر کسی کے سامنے چشمِ تمنا جھک گئی

شوق کی شوخی میں رنگِ احترام آ ہی گیا

جلوے تھے حلقۂ سرِ دامِ نظر سے باہر

میں نے ہر جلوے کو پابندِ نظر جانا تھا

یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے

یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا

Recommended