Urdu News

رومانیت کو نئے معنی دینے والا شاعر: اخترؔ شیرانی

رومانیت کو نئے معنی دینے والا شاعراخترؔ شیرانی

اعجاز زیڈ ایچ

اخترؔ شیرانی نام محمد داؤد خاں،اخترؔ تخلص۔ ۴؍مئی ۱۹۰۵ کو ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے۔ مشہور محقق پروفیسر محمود شیرانی کے فرزند تھے۔ ۱۹۱۹ میں اپنے والد کے ہمراہ لاہور آگئے۔ یہاں ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کیے۔ اختر کا بیشتر زمانہ لاہور میں گزرا۔ شعروسخن کا شوق اوائل عمر سے تھا۔

 تاجور نجیبؔ  آبادی سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ لاہور سے ’’بہارستان‘‘، ’’خیالستان‘‘اور ’’رومان‘‘ رسائل نکالے۔ اردو کی مشہور لغت ’جامع اللغات‘ کی ادارت کی۔ وہ ایک رومانی شاعر تھے۔ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے کم عمری میں ۹؍ستمبر ۱۹۴۸ کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کے شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں

 ’شعرِ ستان‘، ’اخترِ ستان‘، ’شہناز‘، ’لالۂ طور‘، ’طیورِ آوارہ‘، ’صبحِ بہار‘ اور ’شہرود‘، ’اردو ترجمہ جامع الحکایات‘، ’کلیاتِ اخترشیرانی‘(مرتبہ ڈاکٹر یونس حسنی) بھی چھپ گئی ہے۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:386

رومانی شاعر اخترؔ شیرانی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

آرزو   وصل   کی   رکھتی   ہے   پریشاں   کیا   کیا

کیا بتاؤں کہ مرے دل میں ہیں ارماں کیا کیا

مستوں  نے اس ادا سے کیا رقصِ  نو  بہار

پیمانہ کیا کہ وجد میں مے خانہ آ گیا

کوئی ہمدرد زمانے میں نہ پایا اخترؔ

دل کو حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

حزیں ہے بیکس و رنجور ہے  دل

محبت  پر  مگر   مجبور  ہے  دل

جوانی بھی تو اک موجِ شراب تند و رنگیں ہے

برا کیا ہے اگر ہم مشربِ رندانہ رکھتے ہیں

نکہتِ زلف سے نیندوں کو بسا دے آ کر

میری  جاگی   ہوئی  راتوں   کو سلا دے آ کر

تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں

یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں

ہونے کو ہے طلوعِ صباح شبِ وصال

بجھنے  کو  ہے  چراغِ   شبستانِ آرزو  !

ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا

وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے

بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

Recommended