Urdu News

مقبول نغمہ نگار ساغر صدیقی:کچھ یادیں،کچھ باتیں

مقبول نغمہ نگار،اردو کے نامور صوفی منش اور گمنام شاعرساغرؔ صدّیقی

اعجاز زیڈ ایچ

آج19؍جولائی 1974مقبول نغمہ نگار ،اردو کے نامور صوفی منش اور گمنام شاعرساغرؔ صدّیقی کا یومِ وفات ہے۔

نام مّحمد اختر اور تخلص ساغرؔ تھا۔ ۱۹۲۸ میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔گھر میں بہت تنگ دستی تھی اس لیے ان کی تعلیم واجبی سی ہوئی۔۱۵؍بر س کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔ شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا لیکن جلد ہی بدل کر ساغرؔ صدیقی ہوگئے۔ترنم بہت اچھا تھا۔ لطیف گورداس پوری سے اصلاح لینے لگے۔۱۹۴۷ میں وہ لاہور آگئے۔ ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ انھوں نے متعدد فلموں کے گانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ۱٩؍جولائی ۱۹۷۴ کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں۔۔۔

’زہر آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبزِ گنبد‘، ’مقتلِ گل‘۔’’کلیاتِ ساغر ‘‘ بھی چھپ گئی ہے۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:229

مقبول ترین شاعر ساغرؔ صدّیقی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

اے دلِ بے قرار  چپ ہو جا

جا چکی ہے بہار چپ ہو جا

رودادِ محبّت کیا کہیئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

دو دن کی مسرّت کیا کہیئے  کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ

آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے

تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے

پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا

خیرات لے کر مجھ سے چلا تک نہیں گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں

اے ساکنان خلد سنو میں نشے میں ہوں

بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات

آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا

میں آپ اپنے گھر کا  تماشائی بن گیا

ساقی کی اک نگاہ کے افسانے بن گئے

کچھ پھول ٹوٹ کر مرے پیمانے بن گئے

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے

دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

Recommended