Urdu News

آبادی میں عدم توازن ملک کے لیے خطرہ: موہن بھاگوت

آبادی میں عدم توازن ملک کے لیے خطرہ: موہن بھاگوت

ناگپور، 15 اکتوبر (انڈیا نیرٹیو)

سرسنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت نے سرحدی علاقوں میں غیر ملکی دراندازی کی وجہ سے آبادی کے تناسب میں بڑھتے ہوئے عدم توازن پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سرسنگھ چالک نے کہا کہ آبادی کا مذہبی عدم توازن ملک کے لیے شدید پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔سرسنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت وجے دشمیکے موقع پر ناگپور کے ریشم باغ میں ڈاکٹر ہیڈگیوار مندرکمپلیکس میں لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2011 میں کی گئی مردم شماری کے تجزیے میں آبادی میں تبدیلی کے بارے میں معلومات منظر عام پر آئی ہیں۔

بھاگوت نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں غیر ملکی دراندازی اور ملک میں جاری مذہبی تبدیلی کی وجہ سے آبادی کے عدم توازن میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ عدم توازن ملک کی وحدت، سالمیت اور ثقافتی شناخت کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ ہم مختلف مذاہب کے لوگوں کی تولیدی کی شرح میں بھی فرق دیکھتے ہیں۔ سال 1951 اور 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار میں کافی تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس سے قبل ہندوستان میں ہندو 88 سے کم ہو کر 83.8 فیصد ہو گئیہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم آبادی 9.8 سے بڑھ کر 14.23 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ، مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے، عیسائیوں کی آبادی میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ سرسنگھ چالک نے کہا کہ آسام، مغربی بنگال اور بہار کے سرحدی اضلاع میں مسلم آبادی کی شرح نمو قومی اوسط سے بہت زیادہ ہے جو کہ واضح طور پر بنگلہ دیش سے مسلسل دراندازی کی نشاندہی کرتی ہے۔

انتہا پسندی، علاحدگی پسندی اور چھوٹی پہچان کو چھوڑیں اور اکٹھے ہوں: موہن بھاگوت

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے یوم تاسیس پر سر سنگھ چالکڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت نے  ناگپور کے تاریخی ریشم باغ میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر پورے معاشرے کے اتحاد کی اپیل کی۔ ہندو مسلم اتحاد کے نعرے کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سبق سیکھنے کے لیے تاریخ جاننا ضروری ہے کہکبھی مغل حملہ آور ہندوستان آئے۔ لیکن آج جو لوگ یہاں اسلامی رسومات پر عمل پیرا ہیں وہ ان کی اولاد نہیں ہیں۔ اس سچائی کو دونوں برادریوں کو سمجھنا اور قبول کرنا ہوگا۔ ہندو سماج کو اس کی کمزوری کو دور کرتے ہوئے متحد ہونا چاہیے تاکہ وہ انہیں قبول کر سکیں اور اسی طرح مسلم معاشرے کو بھی اپنی چھوٹی شناخت، علاحدگی پسندی اور غیر مناسب انا کو چھوڑ کر ملک کے اتحاد، سالمیت اور جذباتی وحدت کے لیے آگے آنا چاہیے۔

ناگپور سیاپنے خطاب میں سنگھ کے سربراہ نے کہا کہ یہ آزادی کا گولڈن جوبلی سال ہے۔ 75 سال پہلے ہمیں بہت قربانی کے بعد آزادی ملی اور اس کے ساتھ ہی ہمیں تقسیم کا درد بھی ملا۔ ہم چاہتے ہیں کہ آج کی نسل اس درد کی حقیقت جانے اور اس سے سیکھے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے معاشرے کی ذات، طبقے، زبان، صوبے اور ذاتی غرور سے تقسیم ہونے کی وجہ سے ہم پر مغلوں سے لے کر سامراجیوں نے حملہ کیا اور حکومت کی۔ مغلوں نے ہمارے مذہب، ثقافت، رسومات، روایات اور مندروں پر شدید ضرب لگائی۔ نفرت پیدا کرنے کے لیے یہ تاریخ جاننا ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا، بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ کون سے عوامل ہیں جو نفرت پیداکرتے ہیں۔ ان عوامل کو ہٹا کر ہم اپنے ہونے کا احساس پیدا کر سکتے ہیں۔ سنگھ کے سربراہ نے کہا کہ ملک  کی آزادی کیلئے اپنی قربانی دینے والے اشفاق اللہ خان سے لے کر عبدالحمید تککوآئیڈیل طور پر قائم کئے جانے سے اتحاد مضبوط ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک شائستہ اور طاقتور ہندو معاشرے کی تشکیل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس نے وراثت اور روایت سے تمام فرقوں، مسلکوں، تنوعات، عبادت کے نظام کا احترام کیا ہے۔

Recommended