پروفیسر انور پاشا جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں اُردو زبان و ادب کے استاد ہیں۔وہ ایک سیاسی مبصر اورشعلہ بیان مقرر و خطیب کے طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں۔ ادب اور سماج کے رشتوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ جے این یو کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے چئیرپرسن بھی رہے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے مشہور آچاریہ نرندر دیو کالج کے گورننگ باڈی کے چئرمین بھی ہیں۔ تمام سیاسی و سماجی معاملات پر اپنی بے باک رائے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ جامعات کے اساتذہ کو متحد کر اُردو کے حقوق کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ ان کے عزیز شاگرد اور رفیق کار ڈاکٹر شفیع ایوب نے انور پاشا پہ ایک خاکہ نما مضمون لکھا ہے جس کا نام رکھا ہے قلمی چہرہ۔ اس قلمی چہرہ میں زبان کی لطافت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہم ڈاکٹر شفیع ایوب کے شکریہ کے ساتھ انڈیا نیریٹو کے قارئین کے لئے یہ قلمی چہرہ پیش کرتے ہیں۔ (ٹیم انڈیا نیریٹو اردو)
پروفیسرانور پاشا: ایک قلمی چہرہ
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب
درمیانہ قد، آنکھوں میں چمک، چال میں تیزی، چہرے پہ نمک۔تیز قدموں سے چلنا ادائے خاص ہے۔منزل پہ نظر، دوری کا احساس ہے۔ لباس سادہ میں پُرکاری بہت ہے۔ گفتگو میں طرحداری بہت ہے۔ رخِ روشن پہ ذہانت کی تابانی۔دلِ مضطر میں محبت کی فراوانی۔ دیکھ کر لگتا ہے یہ اپنے ہیں، شناسا ہیں۔ جی ہاں یہ ہر دل عزیز انور پاشا ہیں۔ چمپارن کے مگہی شریف میں ولادت ہوئی۔ آغوش رُشد و ہدایت میں پلنے کی حاصل سعادت ہوئی۔ دادا جان، سلسلہ قادریہ کے معززپیر سید عبدالمجید احمد نے سید محمد انوار عالم نام رکھا۔ جس نے زندگی میں سدا حق کا اونچا مقام رکھا۔ گاؤں کی پاکیزہ ہواؤں نے بچپن کو اپنے آغوش میں پالا۔ فطرت نے انوار کو اپنے سانچے میں ڈھالا۔ عہدِ طفلی گزر گئی، عہدِ شباب آیا۔ دل میں جوش، زباں پہ نعرہ انقلاب آیا۔ ابھی کالج ہی پہونچے کہ مشہور اچھا خاصا ہوئے۔ اب خاص و عام میں انور پاشا ہوئے۔ گرمی نشاطِ تصور اثر دکھانے لگی۔ کچھ شوقِ قا فیہ پیمائی نظر آنے لگی۔ اگرچہ تحقیق و تنقید کے شہسوار ہیں۔ لیکن لیلائے سیاست کے بھی پرستار ہیں۔ موتی جھیل سے موتی کے ہار مِل رہے تھے۔ وادی گنڈک کے لیل و نہار مِل رہے تھے۔ موتیہاری اور مظفرپور کی ہواؤں نے بال و پر عطا کئے۔ ابلتے جذبات نے کتنے نشانے خطا کئے۔ ابتدا سے ہی یہ نوجوان منکسرالمزاج تھا۔ سنجیدہ طبیعت میں شوخی کا امتزاج تھا۔ بزرگوں کی تربیت نے طبیعت میں سخاوت دی تھی۔ اساتذہ نے روشن مستقبل کی بشارت دی تھی۔ آداب و گفتگو میں خاندانی مسلکِ صوفیہ کا اثر رکھتے تھے۔ لیکن انقلابِ و احتجاج کی ضرورت پر بھی نظر رکھتے تھے۔ نگاہیں دور رس تھیں، چال میں تیزی تھی۔ سفر میں، حجر میں، ہر حال میں تیزی تھی۔ مناسب قد و قامت، کشادہ پیشانی، آنکھوں میں چمک، باتوں میں روانی۔ یارانِ دل نشیں میں کرتے تھے شعلہ بیانی۔ مگر مانندِ سحر پاک تھی ان کی جوانی۔ بہکتے تھے کبھی کبھی مگر پابندِ اصول بہت تھے۔ حسینانانِ کالج میں مقبول بہت تھے۔ اپنے ترکش میں علم کے تیر و کماں رکھتے تھے۔ یقیں محکم اور عزمِ جواں رکھتے تھے۔لبوں پہ ہنسی، دل میں آہ و فغاں رکھتے تھے۔ اچھے اچھوں کو خاطر میں کہاں رکھتے تھے۔ چمپارن نے چمپا کی خوشبو، عظیم آباد نے گنگا کی روانی دی ہے۔ اجداد کی نسبت نے آنکھوں میں پانی دی ہے۔ ادب میں فلسفہ غالب و اقبال سلجھائے جا رہے ہیں۔ لیلائے سیاست سے بھی پینگ بڑھائے جا رہے ہیں۔ زندگی کتابوں کے ساتھ تلخ حقائق پڑھتی جا رہی ہے۔ ترقی پسند ادب سے دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ ادب برائے زندگی کا فلسفہ چھانے لگا ہے۔ فیض کا اندازِ سخن دل کو بھانے لگا ہے۔
اساتذہ نے نوجوان انوار کے رُخِ انوار کو پڑھ لیا تھا۔ اس کے ظاہر و باطن کو، کردار کو پڑھ لیا تھا۔ بہار یونیورسٹی مظفرپور سے بی اے آنرس کا امتحان پاس کیا۔ اور اس درمیان کچھ کام بہت خاص کیا۔ شوقِ مطالعہ نے ذہانت کو بال و پر عطا کئے۔ توصیفی سند اساتذہ سے ملا کئے۔ فطرت خود بہ خود کر رہی تھی لالے کی حنا بندی۔ اور شامل تھی اساتذہ کی فکرمندی۔ مشفق استاد پروفیسر فاروق احمد صدیقی کی حاصل تھی سرپرستی۔ حصول علم کی چھائی تھی آنکھوں میں سر مستی۔ پروفیسر محمد جان صاحب نے دلّی چلے جانے کو کہا۔ پروفیسر فاروق احمد صدیقی نے فکرِ عظیم آباد کو فکرِ دلّی میں ملانے کو کہا۔ وسعتِ فکر و نظر کو پروان چڑھانے کو کہا۔ جاکے دلّی، وہیں آسن جمانے کو کہا۔ شاگردِ رشید نے استاد کی بات مان لی۔ جا کے دلّی کچھ کر دکھانے کی ٹھان لی۔ جب سمتِ دلّی کو چلا یہ ذہنِ تازہ۔ اہلِ خانہ نے دعاؤں سے نوازا۔ یہ نوجوان علم کی جستجو لئے دلّی جا رہا ہے۔ اپنے دامن میں مٹّی کی خوشبو لئے دلّی جا رہا ہے۔ دلّی میں جے این یو نے استقبال کیا۔ اور پھر علم کی دولت سے مالامال کیا۔ جے این یو کی کھلی فضاؤں نے اُڑنے کی آزادی دی۔ نو واردِ سخن کو خواب بننے کی آزادی دی۔ سوچنے، سمجھنے اور لڑنے کی آزادی دی۔ بات کہنے اور بات پہ اَڑنے کی آزادی دی۔ قابل اساتذہ نے خواب پہ پہرے نہیں بٹھائے۔ اختلافِ رائے کو غلط نہیں ٹھہرائے۔ سید محمد انوار عالم پہلے انور پاشا ہوئے، پھر سب کے پاشا بھائی ہوئے۔ خود لیلائے سیاست کے سودائی ہوئے۔ ادب کی سماجیات کو سمجھنے اور سمجھانے لگے۔ اب یہی نغمہ صبح شام گانے لگے۔ لڑنا اور پڑھنا۔ پڑھنا اور لڑنا۔ جے این یو میں پروفیسر محمد حسن جیسے استاد نے انور پاشا کی رہنمائی کی۔ علم اور سیاست دونوں پر پاشا نے پاشائی کی۔ اسٹوڈنٹس یونین میں سرگرم رہے۔ لیکن محاذ تعلیم پر بھی کب نرم رہے۔
بن کے بے باک مقرر دلوں کو گرمانے لگے۔ اپنی شعلہ بیانی سے آگ برسانے لگے۔ مارکس، لینن، بھگت سنگھ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ دنیا کو بدلنے کے ارادے بلند ہونے لگے۔ جی بھر کے اشتراکیت کی مے پی رہے تھے۔ اب لال جھنڈے کو سلامی دے رہے تھے۔ یہی کام صبح شام، رات دن ہو رہا تھا۔ وی شیل فائٹ وی شیل وِن ہو رہا تھا۔ ان کی نظر میں ہر بشر یکساں تھا۔ دلوں میں عزم، زباں پر گیت رقصاں تھا۔جب تلک ہاتھوں میں ہو نہ سرخ پرچم جاگنا۔ میرے ساتھی جاگنا، میرے ہمدم جاگنا۔ یہی اب گیت گائے جا رہے تھے۔ انور پاشا سب کے دلوں میں سمائے جا رہے تھے۔ تحقیق کے پیچ و خم بھی سلجھائے جا رہے تھے۔ بساطِ سیاست پہ مہرے بھی بچھائے جا رہے تھے۔ محفلِ یارانِ نکتہ داں میں رعنائی بہت تھی۔ اہلِ جنوں سے شناسائی بہت تھی۔ انور پاشا نہ کبھی مریضِ دانائی ہوئے۔ نہ کبھی مصلحت کے شیدائی ہوئے۔ اہلِ خرد نے سمجھایا بہت۔ مگر راہِ جنوں دل کو بھایا بہت۔ فکرِ صالح پہ سدا ایمان رکھتے تھے۔ آنکھوں میں جلن، سینے میں طوفان رکھتے تھے۔حلقہ یاراں میں شاہد و خورشید رکھتے تھے۔ جمیل و نثار و توحید رکھتے تھے۔ شریف و صادق و ذوقی، انوار و اکرام۔ ابھی تک باقی ہے سبھی کا احترام۔ ابرار و ابوالیث بھی سفر کے ساتھی تھے۔ ان نوجوانوں میں ابھی اسلاف کے کردار باقی تھے۔ یہ اختلاف و بحث و مباحثے کرتے تھے مگر ان میں جذبہ جان نثاری بھی کم نہ تھی۔ یہ سب افلاطون اعظم تھے مگر انکساری بھی کم نہ تھی۔ ان یارانِ دل نشیں کے درمیان انور پاشا کا علمی ادبی سفر جاری تھا۔ سماج کو بدلنے کا اک جنون طاری تھا۔”پیش رو“ کے ذریعے ادبی پیش رو ی کی ٹھانی۔ گوارا نہ تھا ادب میں گمرہی کی حکمرانی۔
فکشن کو تحقیق کا موضوع بنایا۔ ہند و پاک کے ناولوں کو اپنایا۔ اگرچہ جذبی و کیفی سے آشنائی بہت تھی۔ فیض و مجروح سے شناسائی بہت تھی۔ لیکن ہند و پاک کے ناولوں کے جائزے کا بیڑا اٹھایا۔ استاد ِ محترم کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ اپنی نوعیت کا یہ منفرد کام تھا۔ اردو ناول پہ آپ کا یہ بڑا اکرام تھا۔ تحقیق میں آپ کی محنت و جاں فشانی کو قبول عام ملا۔ پی ایچ ڈی ہوئی مکمل اور ڈاکٹر کا لقب بطور انعام ملا۔ اسی زمانے میں اردو میں ڈرامے کی تنقید کا نقشِ اول کی تلاش کر کے لائے۔ محفلِ اہلِ نظر میں محقق بھی کہلائے۔ اردو زبان اور مشترکہ تہذیب کی پیروی کرتے رہے۔ دشمنانِ زبانِ اردو سے معرکے سر کرتے رہے۔ اردو کی مخالفت میں اک لفظ سننا گوارا نہ کیا۔ تحریکِ اردو سے کبھی کنارا نہ کیا۔ جو خدا بن کے بیٹھے تھے انھیں کبھی معبود نہیں سمجھا۔ ادب کے دائرے کو محدود نہیں سمجھا۔ ادب کو زندگی کا رہبر بتاتے رہے۔ ادب و زندگی کو ہمسر بتاتے رہے۔ قیامِ ”ہمدم“ نے اک آس جگائی تھی۔ یہ شاید ”پیش رَو“ کی بھرپائی تھی۔
کر کے پی ایچ ڈی، سند یافتہ ہوئے۔ آپ کی علمی صلاحیت پہ اساتذہ بھی فریفتہ ہوئے۔ شہرت ملی، مقبول یاراں رہے مگر کبھی نہ تکبر ہوا۔اساتذہ کی دعائیں رہیں، جے این یو میں آپ کا تقرر ہوا۔ درس و تدریس کی ذمہ داری اب نبھانے لگے۔ بن کے استاد رنگ اپنا جمانے لگے۔ ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں بام و در مسکرانے لگے۔ باغِ اردو کے پرندے چہچہانے لگے۔ شان قلندری میں ذہن ذیشان رکھتے ہیں۔ زمیں پہ پاؤں اور اونچی اُڑان رکھتے ہیں۔ طلبہ کے دلوں میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اپنے طلبہ کا خیال صبح و شام رکھتے ہیں۔مدرس، محقق، مدبر، مقرر سبھی بے نظیر، سبھی بے مثال۔ ادب کی بے کراں فضاؤں میں گزرنے لگے ماہ و سال۔ شہرت کی دیوی نے آنچل پسارا۔ سیاست کی دنیا نے اکثر پکارا۔ صدائیں سنیں ہر طرف کی، کبھی چپ رہے، کبھی مسکرائے۔ مگر یہ گوارا نہ تھا کہ اصولوں پہ کبھی حرف آئے۔ کبھی پرواز نہیں کھوتے شہرت کی اُنچی اُڑانوں میں۔ مٹّی کی خوشبو اب بھی ہے پیاری، دل لگتا نہیں شیشے کی دکانوں میں۔
دعائیں بزرگوں کی، خدا کی مہربانی۔ شریک سفر ہوئیں شمع یزدانی۔ اب سفر میں اندھیروں کی نہیں چلے گی منمانی۔دونوں کے ملنے سے روشن ہوئی شمع زندگانی۔ پھر باغِ انور میں گلِ ”نیلو فر“ کھلا۔اولاد کی شکل میں جیسے کوئی گوہر ملا۔ اس ’ گُل‘ کی خوشبو عظیم آباد اور لندن تک پہنچی۔ ڈاکٹری کی اعلیٰ و امتیازی سند پر ہر طرف صدائے مرحبا گونجی۔ عدل کا پرچم لئے ’عادل‘ بھی ہیں میدان میں۔ کر رہے ہیں خوب اضافہ والدین کی شان میں۔
سر سید کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ بابا صاحب کو جمہوریت کا مسیحا گردانتے ہیں۔ گاندھی کی عظمت کے قائل ہیں۔ روشن خیالی اور حق پسندی پر ہر وقت مائل ہیں۔ وطن سے محبت جزوِ ایمان ہے۔ مذہبی رواداری و وسیع المشربی ان کی نظر میں انسانیت کی پہچان ہے۔ فرقہ پرستی اور ذات پات کو عذاب تصور کرتے ہیں۔ ہر طرح کی دہشت گردی کو لائق عتاب تصور کرتے ہیں۔ دل میں سچی جمہوریت کے قیام کی حسرت ہے۔ یعنی عوامی بہبود پر مبنی مثالی نظام کی حسرت ہے۔ رجائیت کی جوت ہمیشہ جلائے رکھتے ہیں۔ بہتر مستقبل کی تعمیر کی فکر میں دل و جان کھپائے رکھتے ہیں۔ حضرت پاشا کو دیکھ کر لگتا ہے جواں ہے زندگی۔ جاوداں پیہم دواں، ہر دم رواں ہے زندگی۔ جب بھی ملئے اک کیفیت طاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کئی محاذ پہ جنگ جاری ہے۔
*********************************
نتیجہ فکر
ڈاکٹر شفیع ایوب
ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی (بھارت)
Dr. Shafi Ayub
Centre of Indian Languages, SLL&CS
Jawaharlal Nehru University,New Delhi 110067(India)
Mobile No. +919810027532
shafiayub75@rediffmail.com