Urdu News

پروفیسر حمید سہروردی: قلمی چہرہ

پروفیسر حمید سہروردی کا شمار ملک کے ممتاز قلم کاروں میں ہوتا ہے

 

 
 
پروفیسر حمید سہروردی کا شمار ملک کے ممتاز قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ سرزمین دکن کے سب سے معتبر علمی ادبی شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ گلبرگہ (کرناٹک) یونیورسٹی میں صدر شعبہ اُردو تھے۔ ایک شاعر، نقاد اور افسانہ نگار کے طور پر ان کی شہرت و مقبولیت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا بھر میں ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی میں ماس میڈیا کے استاد ڈاکٹر شفیع ایوب نے پروفیسر حمید سہروردی کا قلمی چہرہ (خاکہ نما مضمون) پیش کیا ہے۔ انڈیا نیریٹو ڈاکٹر شفیع ایوب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پروفیسر حمید سہروردی کا قلمی چہرہ ان کے چاہنے والوں کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ (ٹیم انڈیا نیریٹواُردو) 
 
قلمی چہرہ 
 
پروفیسر حمید سہروردی 
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب 
پیکر خلوص، پیکر ہمدردی ہیں۔ آپ حمید سہروردی ہیں۔ درمیانہ قد، کشادہ پیشانی۔ کتابی چہرہ علم کی نشانی۔چال میں متانت، انداز گفتگو پُر وقار۔ لبوں پہ مسکراہٹ سدا بہار۔ سر پہ بال کم، آنکھوں میں چمک زیادہ ہے۔ مطالعہ وسیع، ذہن کشادہ ہے۔  مسکنِ خواجہ بندہ نواز کے باشندہ ہیں۔ اُفق ادب پہ تابندہ ہیں۔ دلنواز، دل فگار ہیں آپ۔ جدید افسانہ نگار ہیں آپ۔ دکن کے نایاب جوہر ہیں آپ۔ محبت، مروت کے پیکر ہیں آپ۔ انسانیت کے علمبردار ہیں۔ نیک سیرت ہیں، خود دار ہیں۔ گلبرگہ کی ادبی فضاؤں نے پالا انھیں۔ ذوقِ اعلیٰ تعلیم نے وطن سے نکالا انھیں۔ اورنگ آباد کو آباد کیا۔ سرزمین مولوی عبدالحق کو شاد کیا۔ ہوائے اجنتا ایلورا نے ان کے ذہن کی آبیاری کی۔ فضائے خلد آباد نے بھی وفاداری کی۔ سرزمین مولانا مودودی نے اس گوہر نایاب کو پہچان لیا۔ حمید سہروردی کی علمی صلاحیت کو بینائے اورنگ آباد نے مان لیا۔
 تکمیل تعلیم ہوئی اور درس و تدریس میں جوہر اپنے دکھانے لگے۔ زیور علم سے خود کو سجانے لگے۔ اہل دانش یہ فرمانے لگے۔ حمید سہروردی کے دشمن ٹھکانے لگے۔ اب ادبی محفلوں میں خوب آنے جانے لگے۔ رفتہ رفتہ آسمانِ ادب پہ چھانے لگے۔ تحقیق، تنقید، شاعری، افسانہ۔ سب کو بناتے رہے نشانہ۔ شاعری سے شغف پرانا تھا۔ مگر سامنے جدید افسانہ تھا۔ پیش رو کئی ادا شناس تھے۔ بلراج مینرا تھے، سرندر پرکاش تھے۔ اسباق فنِ افسانہ یاد بھی تھے۔ سامنے انور سجاد بھی تھے۔ لیکن اپنی نئی راہ نکالی۔ہلکے رنگوں سے افسانے کی تصویر بنا لی۔ اپنے افسانوں میں ماضی کا قصہ بھی سناتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کو پسندیدہ افسانہ نگار بتاتے ہیں۔ کسی ازم کے شکار نظر نہیں آتے۔ سیاروں سے فرضی خبر نہیں لاتے۔ حصار ذات سے باہر بھی نکلتے ہیں۔ شاہد و مشہود کے اسرار بھی کھلتے ہیں۔ افسانوں میں کار زارِ حیات کے تانے بانے بنتے ہیں۔ اپنے دل کی کرتے ہیں مگر عقل کی بھی سنتے ہیں۔ اہلِ خرد کی محفلوں میں آنا جانا بہت ہے۔ مگر اہلِ جنوں سے یارانہ بہت ہے۔ بے عمل لوگوں سے بدظن بھی ہوئے۔ مثلِ خورشید افق افسانہ پہ روشن بھی ہوئے۔ حیدری فقر بھی رکھتے ہیں اور دولت عثمانی بھی۔ اور رکھتے ہیں اسلاف سے نسبت روحانی بھی۔ اپنے افسانوں میں اندھیروں کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ظالم و جابر کی کبھی تعظیم نہیں کرتے۔ یادیں بزرگوں کی اپنے سفر میں رکھتے ہیں۔ اور تہذیب نَو کے جلوے نظر میں رکھتے ہیں۔ جدید افسانے میں داستانی شان رکھتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے افسانے کی، یہ عرفان رکھتے ہیں۔ 
 پان کھانے کے شوقین۔ پرانی قدروں کے امین۔ لذت کام و دہن کے شیدائی بھی۔ خوش لباسی سے آشنائی بھی۔ لباس عمدہ زیب تن کرتے ہیں۔ شکر خدا کہ ہر لباس میں جچتے ہیں۔ تاج شاہی کو ٹھکراتے ہیں، فقیروں کا لبادہ رکھتے ہیں۔ خوش لباسی میں بھی لباس سادہ رکھتے ہیں۔  قورمہ بریانی، خمیری روٹیاں پسند ہیں۔ قوفتہ پسند ہے، مٹن کی بوٹیاں پسند ہیں۔ وقت ضرورت دال روٹی پہ گزر کرتے ہیں۔ پتھر پیٹ پہ باندھنے والوں کو بھی نظر میں رکھتے ہیں۔ رزق حرام سے اپنا دامن بچاتے ہیں۔ مہمانوں کے لئے اکثر دسترخوان سجاتے ہیں۔ فقط چائے کافی سے کام چلاتے ہیں۔ بنت انگور سے دامن بچاتے ہیں۔ راسخ العقیدہ ہیں مگر ذہن کشادہ رکھتے ہیں۔ گفتگو فکر انگیز مگر اسلوب سادہ رکھتے ہیں۔ فقیر وقت ہیں، کشکول میں شمس و قمر رکھتے ہیں۔ فلسفے میں مہارت ہے، تاریخ پہ نظر رکھتے ہیں۔ فلسفے میں تلقین غزالی کی بات کرتے ہیں۔ عہد ِ رسم اذاں میں روح بلالی کی بات کرتے ہیں۔ برق طبعی کی بات کرتے ہیں، شعلہ مقالی کی بات کرتے ہیں۔ واعظ قوم کی پختہ خیالی کی بات کرتے ہیں۔ دم تقریر حمید سہروردی کی صداقت بیباک ہے۔ حیا سے نمناک، لوثِ مراعات سے پاک ہے۔ دل گداز ہے، آنکھوں میں پانی ہے۔ یہ شرافت و نجابت خاندانی ہے۔ صوفیوں سے ربط باہم صدیوں کا قصہ ہے۔ تصوف ان کے باطن کا حصہ ہے۔ذکر مرد مومن ہو تو چہرہ پر نور کیا کھلتا ہے۔ آپ کا سلسلہ حضرت بہاؤالدین ذکریا سے ملتا ہے۔ اکثر و بیشتر خاموش نظر آتے ہیں۔ مگر جب بولتے ہیں تو علم  کا  دریا بہاتے ہیں۔  خاموش ہوں تو لگتا ہے کہ  خاموشی معراج ہے گفتار کی۔  خاموشی سے بڑھ کر کوئی بھی صورت نہیں اظہار کی۔ 
دل کے آستانے پہ منتیں سب نذر ہو گئیں۔ بنت اسمٰعیل نقیب جب شریک سفر ہو گئیں۔دو ہم خیال و ہم زباں مل گئے۔ گلشن حمید میں خوشیوں کے پھول کھل گئے۔ پاک طینت، پاک باطن، پاک دامن۔ ہر سو پھیلی خوشبوئے گل نسترن۔ باغِ حمید میں دو پھول مسکرائے۔ جو غضنفر و خرم کہلائے۔  
حضرت حمید سہروردی شاعر با کمال بھی ہیں۔ خوش فکر بھی ہیں، صاحب جمال بھی ہیں۔ افکار تازہ جب شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ دنیائے ادب میں ”شش جہت آگ“ لگاتے ہیں۔ اہل علم بطور ناقد بھی آپ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ کی ناقدانہ بصیرت کو سلام کرتے ہیں۔ آپ کی تنقید میں بھی اک سرور ملتا ہے۔ جو بھی ملتا ہے ”بین السطور“ ملتا ہے۔ ”ریت ریت لفظ“ سے افسانوی محل بناتے ہیں۔ اور اس محل میں اک ”عقب کا دروازہ“ بھی لگاتے ہیں۔ کبھی آپ بیتی کو بھی جگ بیتی بناتے ہیں۔ پھر ”بے منظری کا منظر نامہ“ دکھاتے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ قاری ”عقب کے دروازے“ سے نکلے گا، کدھر جائے گا۔ جدھر جائے گا اک ”سفید کوّ ا“ نظر آئے گا۔ ذرا آگے بڑھے تو ”ایک اور رات“ ملے گی۔ پھر اس کے بعد ”روشن لمحوں کی سوغات“ ملے گی۔ وہ سوال کرتا ہے ”امیر بخش کون؟ ناقدین ادب اب نہ رہیں مَون۔اب جو رہے مون تو وہ ”احساس کی یاترا“ پر چلا جائے گا۔ ”دشت ہو کی صدائیں“ لگاتا ”سمندر“ میں اتر جائے گا۔ پھر نہ کہنا کہ وہ ”پاگل“ تھا، ”کالے گلاب“ کی بات کرتا تھا۔ ”کشتیاں“ جلا کر ”خواب در خواب“ کی بات کرتا تھا۔ ”خواب در خواب“ میں کتنی تعبیریں نہاں ہوتی ہیں۔ تب ”شہر کی انگلیاں خونچکاں“ ہوتی ہیں۔ حمید سہر وردی اپنے ”شانتی نگر“ میں رہتے ہیں۔ جہاں ”کھوئے ہوئے راستوں کی شب“ میں ”سفید پرندے“ اترتے ہیں۔ وہ ”خالی لمحوں کا سفر“ کرتے ہیں، ”گپھائیں“ دکھاتے ہیں۔ کبھی ”لفظوں کی خواہش“  میں ”وہ ایک کہانی“سناتے ہیں۔ ”بے شناخت“ لوگوں کی ایک ”مورتی“ بناتے ہیں۔ ”بے چہرگی“ کا ”واقعہ“ سناتے ہیں۔ ”لمحہ لمحہ درد“ سہکر ”لا مکانی کا نوحہ“ لکھتے ہیں۔ ”راکھ تلے“ دب کر ”نہیں نہیں۔۔۔۔ ہاں ہاں“ لکھتے ہیں۔   حضرت حمید سہروردی کو جب بھی دیکھیں اک کیفیت طاری ہے۔ ”کہانی در کہانی“ یہ سفر جاری ہے۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 

Recommended