شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام تعزیتی نشست میں مقررین کااظہار خیال
نئی دہلی،08مئی (انڈیا نیرٹیو)
اگر لفظ مفکر و دانشور کسی کو زیب دیتا ہے تو وہ شمیم حنفی ہیں۔ ان کا گزر جانا پوری ادبی دنیا کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔شمیم حنفی کو علمی و ادبی دنیا میں بہت اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل رہا ، علمی وقعت اور عجز و انکسار شمیم حنفی کو عظمت عطا کرتے ہیں۔شمیم حنفی مشرقی و مغربی ادب کے رمز شناس تھے۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام شمیم حنفی کے سانحۂ ارتحال پر منعقدہ تعزیتی جلسے میں صدر شعبہ، پروفیسر شہزاد انجم نے کیا۔
آن لائن تعزیتی نشست میں پروفیسر شہپر رسول نے شمیم حنفی کو چھتناور درخت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر رہے گا کہ وہ ہمارے رفیق کار رہے۔ وہ ہمارے لیے مشن راہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ پوری ادبی دنیا میں ان کی خاص وقعت تھی۔ شمیم حنفی شخصی ، علمی و ادبی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شمیم حنفی نے کئی نسلوں کی ذہن سازی کی ہے۔ ان کے علمی و ادبی کارنامے نہایت وقیع ہیں۔ وہ ایک معنی میں میرے بھی محسن تھے۔
شمیم حنفی کے شاگرد اور معروف ادیب و نقاد پروفیسر کوثر مظہری نے اپنی بہت سی یادوں کا اشتراک کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تربیت میں شمیم حنفی کا سب سے اہم کردار ہے۔ جدیدیت کی بہت سی اصطلاحات کو اردو میں انھوں نے ہی منتقل کیا۔ وہ اردو کے علاوہ ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ادب سے بھی آگاہ تھے۔ فنون لطیفہ سے انھیں گہرا شغف تھا۔ علم و ادب اور انسان دوستی کے حوالے سے وہ دیگر شعبوں میں بھی مقبول تھے۔ وہ جب تاریخ اور ماضی پر گفتگو کرتے تو لگتا تھا کہ ہم ایک علمی و ادبی البم کو دیکھ رہے ہیں۔
پروفیسر شمیم حنفی کے قریبی شاگرد پروفیسر خالد جاوید نے شدید غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمیم حنفی میرے لیے والد کی طرح تھے۔ ان کی بے شمار یادیں مجھ سے وابستہ ہیں۔ جامعہ سے انھیں بے پناہ محبت تھی۔ وہ جب جامعہ آتے تو مالی ، سیکورٹی گارڈ اور ہر طرح کے لوگ ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگتے۔ وہ سب سے ہاتھ ملاتے اور سب کی خیریت پوچھتے۔ اردومیں اگر متبادل تنقید کا کوئی ماڈل ہے تو شمیم حنفی کی تنقید ہے۔ ان کی تنقید کو محض تاثراتی تنقید کہنا درست نہیں۔ ان کے یہاں وجودیت کا جو رجحان ہے وہ ان کے داخل سے پھوٹتا ہے۔
ڈاکٹر سرور الہدیٰ نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ ہماری تعمیر و تشکیل میں شمیم حنفی کا مخلصانہ کردار رہا ہے۔ شمیم حنفی کا بہترین تعارف ان کا حافظہ اور احساس ہے۔ ان دونوں چیزوں کی آمیزش نے ان کی زندگی اور ادب کو ثروت مند بنایا ہے۔
ڈاکٹر شاہ عالم نے کہا کہ شمیم حنفی کا رخصت ہوجانا ادبی دنیا کا اہم خسارہ ہی نہیں میرا ذاتی غم بھی ہے۔ ان سے مل کر ہمیشہ ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا احساس ہوتا تھا ۔ اتنی غیر معمولی یادداشت کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔
ڈاکٹر خالد مبشر نے بحیثیت طالب علم شمیم حنفی کی بہت سی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ طلبا کی علمی ، ادبی اور شخصی تربیت کے لیے غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے۔ وہ طالب علم کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ پر توجہ دیتے تھے۔ ان کی زندگی بے پناہ سادگی سے عبارت تھی۔ ان کا علم بے حد مستحضر تھا۔ وہ کم سے کم لفظوں میں وقیع مقالوں کو نچوڑ کر رکھ دیتے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاوید حسن اور ڈاکٹر ثاقب عمران نے مرحوم شمیم حنفی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ نشست کا اختتام دعائے مغفرت پر ہوا۔ جلسے میں ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری بھی شامل تھے۔