Urdu News

عذاب قبر:قرآن و حدیث کی روشنی میں

عذاب قبر:قرآن و حدیث کی روشنی میں

ابوالبرکات شاذ قاسمی (تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگیراہان بتیا)

عذاب قبر کا عقیدہ قرآن ،احادیث اور اجماع سے ثابت ہے اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور اس پر قرآن واحادیث کی بہت سی براہین دلالت کرتی ہیں جب کہ بعض کوتاہ بیں، مستشرقین ،منکرین احادیث اور مغرب کا چشمہ لگا کر قرآن کی تفسیر کرنے والے اس کا کلی طور پر انکار کرتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ قبر میں مردوں کو عذاب قبر نہیں ہوتا ہم اس مختصر سی تحریر میں قرآن کی مختلف آیات اور صریح و صحیح احادیث کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ عذاب قبر برحق ہے یہ اسلام کا حتمی تصور ہے۔

 جس پر ایمان لانا ضروری ہے چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں کتاب الجنائز کا عنوان “بابُ ما جاءَ فی عذابِ القبر” لگا کر اس کی تایید کیا ہے اور  ثبوت میں قرآن کی یہ آیت پیش کیا ہے۔ ولوتریٰ اذالظالمون فی غَمراتِ الموت  و الملآئکہُ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم الیوم تجزون عذاب الھون بما کنتم تقولون علی اللہ غیر الحق و کنتم عن آیاتہ تستکبرون(الانعام:93)ترجمہ:اور اگر تم وہ وقت دیکھو تو بڑا ہولناک منظر نظر  آئے گا جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہ کہ رہے ہوں گے ؛ اپنی جانیں نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس لئے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمہ لگاتے تھے اور اس لیے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرانہ رویہ اختیار کرتے تھے ۔

اس سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاتی  ہے کہ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ عذاب قبر کے برحق ہونے کا تھا ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے  کہ گنہ گاروں ،عاصیوں  اور کافروں پر عذابِ آخرت کی شروعات روح کے نکلنے کے وقت سے ہی شروع ہوجاتی ہے ایک دوسری آیت میں عذاب قبر کو ایک الگ انداز میں بیان کیا گیا ہے اللہ عزًٔوجلَٔ کا ارشاد ہے :فَوَقَاہُ اللّٰہُ سیئات مامکروا وحاق بآل فرعون سوء العذاب (۴۵)النار یعرضون علیھا غدوا و عشیا و یوم تقوم الساعہ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب(45:46)ترجمہ:”آخرکار ان لوگوں نے جو برے منصوبے بنا رکھے تھے اللہ نے اس مرد مومن کو محفوظ کر لیا اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے گھیرے میں آ گئے  دوزخ کی آگ ہے۔

 جس کے سامنے وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو “علامہ سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے تفہیم القرآن میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں “یہ آیت  اُس عذابِ برزخ کا صریح ثبوت ہے ۔

جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے” اسی طرح تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے  اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے عذاب قبر سے متعلق کئی مستند احادیث کا ذکر کرنے سے پہلے لکھا ہے “و ھٰذہ الآیہُ اصلٌ کبیرٌ فی استدلالِ اہلِ السنہِ علی عذابِ البرزخِ فی القبورِ”یعنی یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔

 ان آیات سے واضح ہوجاتا ہے کہ عذاب قبر وبرزخ درست ہے اور مٌردوں کو مرنے کے بعد سے ہی اُس کا سامنا کرنا ہوتا ہے لہذا جو لوگ عاصی و گنہ گار ہیں  انہیں عذاب قبر کی ہولناکی سے بچنا چاہئے اسی عذاب برزخ کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے ” وَلَنُذیقنَّھم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون :(سورہ سجدہ21)

ترجمہ:“اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزہ انہیں چکھاتے  رہیں گے شاید  کہ وہ اپنے باغیانہ روش سے باز آجائیں اس میں دو عذاب  کا ذکر ہے عذاب اکبر و عذاب اصغر عذاب اکبر سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو  آدمی کو کفر و شرک کے پاداش مین دیا جایے گا اس کے مقابلے میں عذاب ادنی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔

جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو موت سے قبل انسانی زندگی میں پیش آتی ہیں یہاں تک کہ سکرات الموت بھی جو عذاب برزخ کا ایک حصہ ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو خطا کار اور سزاوار ہیں ان کے لئے باری تعالی نے دو طرح کا عذاب مقرر کر رکھا ہے ایک جہنم کا آخری اور فیصلہ کن عذاب  اور دوسرا وہ عذاب ہے ۔

جو موت کے وقت سے شروع ہوتا ہے قرآن کے مختلف آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ عذاب برزخ یعنی عذاب قبر ہی ہے اس آیت کے مضمون کی تائید سورۃ طور کی ایک دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔:”و انَّ للذین ظلموا عذابا دون ذالک و لکن اکثرھم لا یعلمون (سورہ الطور47)ترجمہ “اور اس وقت کے آنے سے پہلے بھی ظالموں کے لیے ایک  عذاب ہے  مگران مین سے اکثر جانتے نہیں۔

ابھی تک ہم نے قرآن کی متعدد آیتوں کے ذریعہ عذاب قبر کی حقیقت کو سمجھا اب ہم آگے کی تحریر میں احادیث مبارکہ کے حوالے سے بھی عذاب قبر کو جاننے کی کوشش کریں گے چناچہ ہم پاتے ہیں  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مختلف انداز میں عذاب القبر کا تذکرہ کیا ہے اور امت کو اعمال کی طرف رغبت دلایا ہے تا کہ وہ اعمال صالحہ اور منکرات سے اجتناب و پرہیز کے ذریعے قبر کی شدید عذاب سے بچ سکیں چنانچہ  بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے :اِن النبی ﷺ مَرَّ بِقَبرین فقال اِنھما لَیُعذبان و ما یُعذبان فی کبیر اَما احدُھما فکان لایَستبْرئُ من البولِ و امٔا الآخرُ فکان یَمشی بالنمیمہِ ۔

ترجمہ:“رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا تو آپ ُﷺ نے فرمایا ان دونوں کو قبر کا عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں ایسے چھوٹے کام میں عذاب دیا جا رہا ہے جس سے  بچنا بہت زیادہ مشکل نہ تھا (مگر وہ نہ بچے)ان میں سے ایک پیشاب کرتے وقت استنجا درست طور پر نہ کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرنے کی برائی میں مبتلا تھا” مسلم شریف کی ایک دوسری روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی موجود ہے: ِانَّ ھٰذِہٖ الْاُمَّہُ تُبتلی فی قبورِھا فلولا ان تُدافنوا لَدَعوتُ اللہَ اَن یُسمعَکم من عذابِ القبرِ الذی اَسمعُ منہٗ۔

ترجمہ:“بلا شبہ س امت کے تمام افراد عذاب قبر سے آزمائے جائیں گے اگر مجھے اس بات کا اندازہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے  تو میں رب کریم سے  ضرور دعا کرتا کہ تم کو عذاب قبر کی آواز سنا دے جو میں سنتا ہوں” اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عذاب جہنم سے پہلے عذاب قبر کے مرحلے سے گزرنا ہوگا اور یہ بات بھی خوب سمجھی جاسکتی ہے کہ جہنم کے عذاب کی طرح قبر کا عذاب نہایت خطرناک اور خوفناک ہوگا۔

ایک اور حدیث میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ یہود کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں وہ کہنے لگیں کہ قبر والوں کو ان کے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے میں نے ان کی تکذیب کی اور ان کی تصدیق کرنے کو اچھا نہیں جانا وہ چلی گئیں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ۔ﷺ! اور ان دو بوڑھی عورتوں کے آنے اور عذاب قبر کی خبر دینے کا تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں نے سچ کہا قبر والوں کو اتنا عذاب دیا جائے گا کہ اس کو تمام جانور سنیں گے پھر میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز پڑھتے  تو ہر نماز میں قبر سے پناہ طلب کرتے۔ (صحیح البخاری حدیث 1049/2366صحیح مسلم 586سنن نسائی22063)حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کی شرح مین لکھا ہے کہ اس سے پہلے آپ پر یہ وحی نہیی کی گئی تھی کہ مؤمنوں کو بھی عذاب قبر  ہوگا آپﷺ کو وحی سے صرف یہ علم تھا کہ یہود کو عذاب قبر ہوتا ہے اور اس موقع پر آپ کے پاس یہ وحی آئی کہ مومنوں کو بھی عذاب قبر ہوگا تب آپﷺ نے عذاب قبر سے پناہ طلب کیا (فتح الباری جلد 2صفحہ 468 دارالفکر بیروت سن اشاعت 1420ھ)یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز پڑھا کرتے تھے تو عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے  ان النبی ﷺ قال :اذا فَرَغَ احدُکم من التشَّھدِالاخیرِ فَلْیَتَعَّوذْ بِا اللہِ من اربعٍ :من عذاب جھنم و من عذاب القبر و من فتنہ المحیا و المماتِ ومن شَرِّ فتنہ مسیح الدجال: ترجمہ :”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بھی آخری تشھد سے فارغ ہو تو چاہیے کہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگیں( 1)عذاب قبر(2) عذاب جہنم (3)مُردوں اور زندوں کے فتنوں سے اور (4)مسیح الدجال کے رونما ہونے کے وقت کے فتنون سے “۔

غرض کے قرآن کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمش ہوجاتی ہے کہ عذاب قبر کا مرحلہ نہایت دردناک اور خوفناک  ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس فتنہ سے پناہ مانگنے کو کہا اور خود بھی اس فتنہ سے پناہ طلب کیا کرتے رہے  یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ  قرآن وحدیث کے تناظر میں اہل سنت و الجماعہ کا مضبوط و مستحکم عقیدہ ہے کہ عذاب قبر بر حق  ہے  اخیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک اور قولی روایت کا تذکرہ کرنا نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے جو عذاب قبر کے برحق ہونے پر صریح ہے اور اس مسئلہ میں فیصلہ کن بھی  ہے عن عائشہ رضی اللہ عنہا: قالت :سألت نبی ﷺ محمداً عن عذاب القبر قال نعم عذاب القبر حقٌ ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر  کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے ۔

یہ روایت اس باب میں صریح ہے غرض کے قرآن و حدیث کی روشنی میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ عذاب قبر کے برحق ہونے کا ہے عذاب قبر کو تسلیم نہ کرنا قران کی آیات اور احادیث صحیحہ کا صریح انکار ہے اور ایسا کرنے والا مومن باقی نہیں رہتا۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے آمین ۔

ربنا ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ

Recommended