ابوالبرکات شاذ قاسمی
رمضان یہ “رمض” سے مشتق ہے اس کے معنیٰ گرمی کی شدت ،دھوپ کی تپش اور جلا دینے کے آتے ہیں (القاموس المحیط) چوں کہ اس مہینے میں تربیت و ریاضت کے ذریعے بندوں کے تمام گناہوں اور برائیوں کو جلا کر مٹا دیا جاتا ہے ؛ اس لیے اس مہینے کو رمضان کہا جاتا ہے یہ اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے اس مہینے کو شہر مبارک،شہر مؤاساہ،شہر صبر،شہر رزق،شہر تربیت شہر مؤمن،شہرقدر،شہر قرآن اور شہر رسول بھی کہا گیا ہے۔
اس ماہ مبارک کا استقبال آپﷺ دو ماہ قبل سے ہی کیا کرتے تھے اور روحانی ،جسمانی اور مالی عبادات میں دو چند اضافہ فرمایا کرتے تھے۔ اسی مہینے میں قرآن نازل ہوا آپ اسی مہینے میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے اسی مہینے میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس مہینے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اسی ماہ مین ایک خاص نماز “نمازِ تراویح ” ادا کی جاتی ہے۔
رمضان المبارک خصوصی انعامات و آفر والا مہینہ ہے چھوٹے چھوٹے اور تھوڑے تھوڑے سے کام پر بھی بے شمار تحائف و انعامات سے نواز جاتا ہے اس مہینے میں خاص طور پر ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کی ادائیگی پر ستر فرضوں کی ادائیگی کا اجر و ثواب دیا جاتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مَنْ صام رمضان ایماناً و احتساباً غُفر لہ ماتقدم من ذنبہ(بخاری 37مسلم 759)جس نے رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے :من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ(نسائی1603) جس نے رمضان المبارک کے مہینے میں ایمان اور احتساب کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھی اس کے اگلے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ مومن کے لیے یک ماہی تربیتی کورس ہے جس میں ایمانی،روحانی،مالی اور اخلاقی تربیت کے لیے بہترین ٹاسک بندۀ مومن کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کے اس ٹاسک کو پورا کرنے کے بعد ایک مومن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پورے سال دیگر مہینوں میں بھی اس ٹاسک کو پورا کرے اور اس کو کرنے کے بعد اس کے لئے سال بھر کی زندگی کواس یک ماہی تربیتی کورس کے نہج پر گزارنا آسان ہو جاتا ہے۔
جب بندہ اس ٹاسک کو پورا کرتا ہے تو اس کے اندر ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جس کو نورانی و ملکوتی کہتے ہیں اللہ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور اس کے آخرت کے اعمال بنا دیتا ہے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے نجات دیتا ہے۔رمضان المبارک کے اس ایک ماہی کورس کے ذریعے بندے کے اخلاق و کردار معاش و معاشرت سب پر نور کی برسات ہونے لگتی ہے اور بندے کا سراپا نورانی ہو جاتا ہے۔
جب بندۀ مومن اس یک ماہی تربیتی کورس کو مکمل کرنے اور شب وروز کی عبادت میں ریاضت کر لینے کے بعد فارغ ہوتا ہے تو وہ “یوم الجائزہ”یعنی عید الفطر کا دن ہوتا ہے جس دن اللہ تبارک و تعالی عبادت و ریاضت کرنے والے اپنے تمام بندے کو سارے گناہوں کی معافی کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے اس کے بعد ان میں زندگی کی نئی روح پھونکی جاتی ہے تادمِ حیات آنے والی زندگی کو اسی نہج پر گزارنے کے لیے نئی امنگیں بھری جاتی ہیں۔
ان میں جوش اور ولولہ پیدا کیا جاتا ہے اور پھر سے سال بھر کے لیے میدان عمل میں اتارا جاتا ہے مگر واضح ہو کہ اس ٹاسک کو پورنے کے لیے ہمیں صبر و استقامت سے کا لینا ہوگا یوم الجائزہ یعنی عید کے دن انعامات کا سر ٹیفیکٹ لینے کے لیے ہمیں خصوصی طور پر پانچ تربیتی ٹاسک کو پورا کرنا ہوگا۔ اور وہ ٹاسک یہ ہیں۔(1)صیام یعنی روزہ(2)قیام یعنی فرائض و نوافل کا اہتمام(3)قرآن کی تلاوت ۔تدبر و تفکر(4)مواسات یعنی پوری دنیا کے مخلوق کے ساتھ غم خواری(5)صبر و استقامت
رمضان المبارک کے مہینے میں ان پانچوں چیزوں کی تربیت مطلوب ہے اور یہ مطلوب ہے کہ مسلمان اس ٹاسک کو پورا کریں اور اسی کے بموجب اپنی پوری زندگی کو گزاریں۔ اعمال صالحہ پر مبنی ان پورے ٹاسک کو اسلامی طریقے پر ادا کرنے کا مقصد دلوں مین تقوی کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :یاایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون(سورہ بقرہ /۱۳۷)اے ایمان والو تم پر اس طرح روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا شاید کہ تم متقی بن جاؤ۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ محض رسمی طریقے اور روایتی اسلوب پر روزہ تراویح اور دیگر اعمال کے انجام دینے سے تقوی پیدا نہی ہوگا بلکہ اس کے طور طریقوں کو مکمل طور پر سیکھ کر سمجھ کر ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
رمضان المبارک کے یک ماہی پروگرام کا پہلا ٹاسک “صیام” یعنی روزہ ہے جس کو اس ماہ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے روزہ کو عربی میں صوم یا صیام کہتے ہیں ہر عاقل بالغ مسلمان پر رمضان کے پورے ماہ کا روزہ رکھنا فرض ہے جان بوجھ کر روزہ کو توڑ دینا گناہ کبیرہ ہے اور ناقابل معافی گناہ ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ (سورہ بقرہ /آیت ۱۸۵)
طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے بچنے کا نام روزہ ہے روزے کی حقیقت سمعی بصری حسی تمام برے کاموں کو چھوڑ دینا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجہ فی ان یدع طعامہ و شرابہ ۔ترجمہ : جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا اس کے بھوکے رہنے سے اللہ تعالی کو کوئی سروکار نہیں
دوسرا اہم ٹاسک قیام یعنی نوافل وفرض نمازوں کی پابندی کرنا ہے نماز یوں تو ہر بالغ مرد و عورت پر دن رات میں پانچ مرتبہ وقت کی رعایت کے ساتھ فرض ہے ۔ان الصلوات کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا (سورہ نساء /۱۰۳)لیکن اس مہینے میں اضافی نمازوں کی پابندی کراکر بندوں کو نماز کا عادی بنایا جاتا ہے تاکہ بندہ ہر جگہ اللہ کو حاضر ناظر سمجھ کر اپنی زندگی کے لیل و نہار گزارے اور جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والا بن جائے اسی لئے اس ماہ میں نوافل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے ۔
تیسرا اہم ٹاسک کلام الہی کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ہےاس مہینے میں اس ٹاسک کے ذریعے بندے کو مالک کے فرمان کا ہر گھڑی پاس و لحاظ کرنا سکھایا جاتا ہے اور یہ مطلوب ہے کہ بندے کے سامنے ہر گھڑی اس کے مالک کے احکامات و ہدایات رہیں اور وہ اپنے روزمرہ کے تمام کام اس احکام الہی کی روشنی میں پورا کرے اسی مقصد سے ساری آسمانی کتابیں اسی ماہ رمضان المبارک میں نازل کی گئیں رمضان کی پہلی رات میں صحف ابراہیم چھٹی کو تورات بارہویں یا اٹھارویں کو زبور تیرہویں کو انجیل اور چوبیسویں کو فرقان عظیم یعنی قرآن مقدس کا نزول ہوا (مسند احمد 16984/المعجم للطبرانی 3740)
قرآن کریم کے ہر حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں (ترمذی2910)لیکن مقصود صرف تلاوت نہیں بلکہ قرآن کے نزول کا مقصد اللہ کی ہدایت اور نظام کے مطابق بندوں کی زندگی کو ڈھال بنانا اور گزارنا ہے اسی لیے رمضان المبارک کے مہینے میں اجتماعی طور پر اللہ کا یہ پیغام تراویح میں بندوں کو سنایا جاتا ہے تاکہ ہر کوئی یہ جان لے کہ ہماری زندگی کے لیے قرآن ایک مکمل شیڈول ہے اسی کے مطابق زندگی گزارنے میں ہماری دنیاوی اور اخروی نجات کا راز مضمر ہے
چوتھا ٹاسک جس کو پورا کرنا اس مہینے میں ضروری ہے وہ غمخواری یعنی دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہونا ہے اس لیے رمضان المبارک کو شہر الموساہ بھی کہا جاتا ہے ایک مومن بندہ روزہ رکھتا ہے اور اپنی ہر خواہش کی تکمیل پر قابو رکھتا ہے تو اس کے اندر دوسروں کی تکلیف درد اور پریشانی کا احساس بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
واضح ہو کہ مذہبِ اسلام میں جس طرح تعلقات کو توڑنا قطع رحمی کرنا بہت بڑا گناہ ہے اسی طرح صلہ رحمی کرنا دوسروں سے تعلقات کو استوار رکھنا بہت بڑا ثواب کا کام ہے خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس ماہ مکرم میں دوسروں سے تعلقات کو جوڑتا ہے ہمدردی و غم خواری کرتا ہے دوسروں کی ضروریات کو پوری کرکے ثواب حاصل کرتا ہے۔
آج بھی بہت سے ایسے یتیم بے سہارا مسکین بیوہ نادار و محتاج ہیں جو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نہی کھا سکتے ان کے سرون پر محبت و شفقت کا سایہ نہی ہے وہ ہماری افطار و سحری کے انواع و اقسام کے کھانے پکوان کو دیکھ کر اپنی قسمت کو روتے ہیں ان سے ہمین محبت کرنی ہے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنا ہے۔
اس ماہ مبارک میں ایک ٹاسک یہ بھی ہے کے ہم دوسرون سے غم خواری کریں ہماری غم خواری ان لوگون سے بھی ہونے چاہیے جو دین اسلام کی بالا دستی کے لیے حق انصاف اور امن و امان کے قیام کے لئے باطل سے ٹکرا گئے اور آج جیلوں میں ہیں این آر سی اور سی اے اے کے موقع پر ہمارے بہت سے بہن بھائیوں کو جیلوں مین بند کردیا گیا ان کے بچے خاتون اور ان کے والدین پر اس ماہ رمضان میں کیا گزرتا ہوگا ان کے گھر کا خرچ کیسے چلتا ہوگا ہمیں ایسے افراد سے غم خواری کرنی ہے اور ان کے حالات کا جائیزہ لے کر ان کا انتظام کرنا ہے۔
پانچواں ٹاسک جس کو اس ماہ مبارک میں پورا کرایا جاتا ہے وہ صبر و استقامت ہے ۔رمضان صبر و استقامت کا مہینہ ہے کیونکہ اس میں ہر عمل پر صبر کرنا پڑتا ہے سحری کے بعد سے افطار تک بھوک، پیاس، کھانے،پینے،غصہ، نفرت، برائی، لڑائی، جھگڑا غرض کے اس قسم کی ہر کیفیت پر صبر کرنا ہوتا ہے ۔یہ بات ڑی قابل توجہ ہے کہ موجودہ ملکی حالات میں جب کہ شدت پسند ہندو تنظیمیں سرکار اور انتظامیہ کی پست پناہی سے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہیں حالیہ دنوں رام نومی کے موقع سے بہار مہاراشٹر بنگال میں یاترا کے نام پر کھلے عام مسلمانوں کو گالیاں دی گئیں مسجد پر لات مارا گیا اس پر چڑھ کر بھگوا لہرایا گیا۔
حال ہی میں جیل کی سلاخوں سے باہر آنے والا ٹی راجا نے مسجد کے سامنے ہزاروں کے مجمع میں ایسے گندے بول بولے جو آئین کے خلاف ہے ہندو مسلم کے درمیان تنازع پیدا کرنے والا ہے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے والا ہے ہمیں ایسے نازک حالات میں صبر کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہیے اور پوری استقامت کے ساتھ ایسی شیطانی طاقتوں کا جمہوری طور پر مقابلہ کرنا چاہیے ناحق ،ظلم، باطل، ملک مخالف، امن مخالف، ہر عناصر کے لیے ہر گھڑی تیار رہنا چاہئے اور اس کے لیے پوری تیاری ہونی چاہیے۔
اور اس راہ میں پیش آنے والی ہر مصیبتوں پر صبر کرنا چاہیے رمضان المبارک کے مہینے میں صبر و استقامت کے اس ٹاسک سے ہمیں دفاعی صبر کو پوری زندگی اپنا مزاج بنانے کی تربیت بھی ملتی ہے جس طرح ہم غلط خواہشات و جذبات سے خود کا دفاع کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح ہمیں غلط افراد سے خود کا دفاع کرنا چاہئے اور اس راستے میں جو تکلیفیں پیش آییں اس پر صبر کرنا چاہئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ صبر کا یہ ٹاسک ہمیں پوری زندگی صبر کرنا سکھاتا ہے ۔
غرض کے رمضان المبارک تقوی اور خشیت الہی کا مہینہ ہے اس مختصر تحریر میں جس قدر ٹاسک گنوائے گیے ہیں ان سب کا حاصل رضائےالہی ہے اس لیے ہمیں ان سارے ٹاسک کو اس غرض سے پورا کرنا چاہیے کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے دلوں میں تقوی کی کیفیت پیدا ہو جائے اللہ ہمیں اس رمضان کو زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور متذکرہ تمام ٹاسکوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابوالبرکات شاذ قاسمی تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگیراہاں بتیا
:ای میل abulbarkat98@gmail.com