مدھیہ پردیش حکومت نے نئے تعلیمی سال سے ریاست کے تعلیمی اداروں میں مذہبی اور اخلاقی تعلیم کے باب میں رامائن اور مہابھارت کے ساتھ بھگوان شری کرشن ،بھگوان رام اور ہنومان کی سوانح کو پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ طلبا کے اعلی اخلاق اور بہترین کردار سازی کے لئے حکومت اس تعلیم کو جہاں لازمی قرار دے رہے ہیں وہیں کانگریس نے حکومت کے فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے سناتن دھرم کی توہین سے تعبیر کیا ہے ۔ وہیں مسلم تنظیموں نے مذہبی اور اخلاقی تعلیم کے باب میں ہندو دیوی دیوتاؤں ،سنتوں کی تعلیم کے ساتھ سبھی مذاہب کی تعلیم دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
مدھیہ پردیش کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم ڈاکٹر موہن یادو کہتے ہیں کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ہم اپنی روشن تعلیم کو منظر عام پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔چاہے ہمارے دھرم گرنتھ،رامائن ،مہابھارت ہو یا پھر ہمارے وہ لوگ جنہوں نے سماج کی ترقی میں اہم کردار ادا کیاہے جن میں رانی درگاوتی ،رانی آونتی بائی ہوں یا دیوی اہلیا ہوں یا وکرمہ دتیہ ہوں یا راجہ بھوج ہوں ،ان جیسی عظیم شخصیات کو نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اس سے طلبا کو اپنے ملک کی عظیم شخصیات کو قریب سے جاننے کا جہاں موقعہ ملے گا وہیں قدیم گیان وگیان کو بھی طلبا جان سکیں گے۔
وہیں کانگریس نے حکومت کے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سناتن دھرم کی توہین سے تعبیر کیا ہے ۔ مدھیہ پردیش کانگریس ترجمان کے کے مشرا کہتے ہیں بی جے پی کے لئے بھگوان رام صرف اقتدار میں بنے رہنے کا ایک ذریعہ ہیں ۔ جو ہمارے بھگوان ہیں ،جن کی سوانح دنیا میں کہیں موجود نہیں ہیں ان کے بارے میں سرکار طلبا کو کیا تعلیم دے گی۔
وہیں مدھیہ پردیش جمعیت علما نے مذہبی اور اخلاقی تعلیم کے نصاب میں صرف ایک مذہب کے لوگوں کو شامل کئے جانے کی مخالفت کی ہے ۔ مدپیہ پردیش جمعیت علما کے صدر حاجی محمد ہارون کہتے ہیں کہ حکومت اگر اخلاقی اور مذہبی تعلیم کو لازمی سمجھتی ہے تو اسے ہندو مِذہب کے ساتھ ،اسلامی ،بودھ،جین ،سکھ اور عیسائی مذہب کی اعلی تعلیم کو بھی شامل نصاب کرنا چاہیے ۔
بھوپال ایم ایل اے عارف مسعود کہتے ہیں کہ ان کا سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ جھوٹا ہے ۔اگر سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ہوتا تو رامائن اور مہابھارت کے ساتھ قران ،بائبل اور گرو گرنتھ صاحب کو بھی جوڑدیتے ۔در اصل رام کے نام پر سیاست کرنے والے مرکز سے لیکر صوبہ تک ہر جگہ ناکام ہو چکے ہیں ۔نہ صرف ملک کی معیشت خستہ حالی کا شکار ہوئی ہے بلکہ تعلیمی نظام بھی مفلوج ہوگیا ہے۔کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کبھی رامائن اور مہابھارت کی بات کرتے ہیں تو کبھی آرایس ایس کو پڑھانے کی بات کرتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیں یہ آرایس ایس کی کون سی تاریخ پڑھائیں گے ۔جن لوگوں نے تحریک آزادی میں کبھی حصہ نہیں لیا جو لوگ انگریزوں کے ساتھ مجاہدین آزادی کے خلاف کام کرتے تھے ۔جنہوں نے انگریزوں سے معافی مانگی ہیں ۔ صرف اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے یہ ڈھونگ ہے اور کچھ نہیں ۔