Urdu News

رمضان کے یہ چند ایام طے کریں گے مدرسوں کا مستقبل

شہاب حمزہ

 

 
 
 
 

 
 
رمضان کے یہ چند ایام طے کریں گے مدرسوں کا مستقبل 
 
شہاب حمزہ 
 
 
 
بچپن بچاؤ آندولن کے بانی اور ہندوستان سمیت 103 ملکوں میں بچوں کے استحصال کے متعلق بیش قیمتی خدمات انجام دینے والے نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کے مطابق کووڈ ۔ 19 وبا کے سائے میں گزشتہ سال سے اب تک مختلف مدتوں کے لئے تقریبا پوری دنیا میں نافذ لاک ڈاؤن کے سبب  ڈیڑھ ارب بچے اسکول جانے سے محروم ہوگئے ہیں ۔ وبا کے  موجودہ حالات کے زیر اثر انہوں نے مزید بتایا ہے کہ ان میں سے تقریبا ڈھائی کروڑ بچے اب دوبارہ اسکول نہیں جا پائیں گے اور ان کے اندازے کے مطابق ان میں سے سب سے زیادہ بچے ہندوستان کے ہونگے ۔ وبا کے اولین اثرات سے لے کے دوسری لہر تک پوری دنیا میں یوں تو تمام شعبے پوری طرح متاثر ہوئے ہیں لیکن اِن  شعبوں میں جو  سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ یقینی طور پر شعبہ تعلیم ہی ہے ۔ اگر ہم اپنے محبوب وطن کی بات کریں تو جنتا کرفیو کے سے اب تک ہمارے تعلیمی ادارے کھل نہیں سکے ہیں ۔ مختلف ریاستوں میں کالج، یونیورسٹی اور ہائی اسکولوں کو کھولنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن ابھی قاعدے سے تعلیم کا سلسلہ شروع بھی نہ ہو سکا تھا کہ وبا کی دوسری لہر نے پھر سےان  تعلیمی اداروں پر مستقل تالے لگا دیے ۔ متعدد ریاستوں میں سرکاری سطح پر آن لائن کلاسز کی شروعات بھی کی گئی لیکن میدان تعلیم کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی ناکامی ثابت ہوئی ہیں ۔ فیس کی اچھی خاصی رقم وصول کرنے والے بہت سارے پرائیویٹ اسکولوں نے اپنی دوکان داری قائم رکھنے کے لیے آن لائن کلاسز کو اب تک کسی طرح کھینچ کر چلانے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ گارین حضرات ان اسکولوں کو موٹی فیس ادا کر کے کم سے کم اس بات پر اطمنان ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بچے جیسے بھی ہو درس وتدریس اور علم و  تعلیم سے جڑے ہوئے ہیں۔اسکول اور پڑھائی کے نام پر مختصر سا وقت لگنا بچوں کے لئے بھی باعث مسرت ہے تو یقینی طور پر ان اداروں کے لیے کم محنت اور لاگت  میں نفعے کی تجارت ہو جانا نہ صرف خوشی کی بات ہے بلکہ ان اداروں کی بقاء کا ضامن بھی ہے۔  دوسری جانب سرکاری اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی بات کریں تو بھلے ہی درس تدریس کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے لیکن سرکاری سطح پر بچوں کو ملنے والے امداد کا سلسلہ جاری ہے۔  جس سے حاصل کرنے کے لیے مہینے میں ایک دو دن گارجین  حضرات اسکول جایا کرتے ہیں ۔ لیکن ایک سچائی تو یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے ان بچوں کو تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ شہروں اور گاؤں میں چھوٹے پرائیوٹ اسکول میں پڑھنے والے بچوں کا حال بھی سرکاری اسکول کے بچوں جیسا ہی ہے ۔ 
لیکن وہ طالب علم حال زار کے اس آخری پائیدان پر ہیں جہاں گزشتہ ایک سال سے درس و تدریس کا کوئی سلسلہ نہیں اور نہ ہی ان بچوں کا پڑھائی سے کوئی واسطہ رہ گیا ہے ۔ بلاشبہ یہ وطن عزیز کہ وہ بچے ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی مدرسے سے ہے۔ یوں تو  مدرسہ میں پڑھنے والے طالب علم  عام طور پر مفلسی کی دہلیز پر بے بسی کے چراغ ہوتے ہیں ۔ چھوٹے بڑے شہروں، گاؤں اور قصبوں  میں بے شمار مدرسے قائم ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں مسلم بچے دینی و عصری تعلیم حاصل کیا کرتے ہیں۔  لیکن گزشتہ ایک سال سے یہ بچے مدرسے کا منھ تک نہیں دیکھے اور نہ ہی ایک حرف پڑھنے کی نوبت آئی ہے ۔ بلکہ ان میں سے زیادہ تر بچے مفلسی کی دہلیز پر لوٹ کے اپنی غریبی سے جنگ لڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ آپ یقین جانیں ہمارے مدرسے کی یہی بچے کسی نہ کسی طور پر سب سے بڑی تعداد میں محنت کشوں کے صف میں شامل ہو کر اپنی محنتوں سے غریبی کا جرمانہ ادا کر رہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بچوں کا کاغذی داخلہ سرکاری اداروں میں کرایا  بھی گیا ہے محض اس غرض سے کہ یہ  سرکاری مدد کا حصہ بن سکیں۔
یہ لازم ہے کہ مدرسے کی ان معلمین کی بات بھی  کی جائے جو اپنی آنکھوں سے اپنی تباہی کا منظر دیکھ رہے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وبا سے ہر طبقہ متاثر ہے لیکن اس  سے سب سے زیادہ جو متاثر ہوئے ہیں وہ یقینا ہمارے مدرسوں کے مولوی اور  اساتذہ کرام ہیں۔  پورے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں مدرسے موجود ہیں جہاں اپنی خدمات انجام دینے والے معلمین کی تعداد لاکھوں میں ہے جو اب یقینی طور پر  بےیارومددگار ہیں ۔ وبا اور ملک بندی کے سبب ان کے سامنے سب سے پہلا مسئلہ تو ان کی روزی روٹی کا ہے ۔ حالات قابو میں آنے کے انتظار میں ابتدائی چند مہینوں تک یہ کسی طرح زندگی کے لمحے کاٹتے رہے ۔ مہینوں کی پابندیوں اور مسلسل تعلیمی اداروں کے بند رہنے کے سبب ہمارے معلمین حضرات،  علماء کرام اور حفاظ کرام ضروریات زندگی کے لئے دوسرے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ ہمارا قوم اس بات سے بخوبی آشنا ہے کہ ملک کے مدرسے ہمارے زکوۃ ، صدقات اور خیرات کے پیسوں سے چلائے جاتے ہیں ۔ آج ہمارے مدرسے ویران پڑے ہیں ان کی خبر لینے والا کوئی نہیں ۔ ہزاروں مدرسے کی عمارتیں آج اپنی زبوں حالی پہ آنسو بہا رہے ہیں ۔ جہاں کبھی قرآن کی تلاوت سے فضائی پر نور ہوتی تھیں،  جن کمروں میں حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی اور  جس دہلیز پر دین اور ایمان کی باتیں بتائی جاتی تھی آج انہیں مدرسوں میں کوئی جھاڑو لگانے والا نہیں ہے ۔ ان مدرسوں میں وقت اور حالات کے اتنے غبار بیٹھے ہیں کہ جسے صاف کرنے میں زمانے لگیں گے۔  مدرسوں کی آمدنی کا بہترین سیزن ماہ رمضان ہوتا ہے ۔گزشتہ سال سخت لاک ڈاؤن کے سبب تقریبا تمام مدرسہ چند سے محروم رہ گئے ۔ جس کے بعد  سے مہینوں ملک بندی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ۔ اور سالِ گزشتہ ہمارے مدرسے اپنے حقوق سے تقریبا سوفیصد محروم رہ گئے ۔ اس ایک سال کے دوران بلاشبہ لوگوں کے مالی حالات کمزور ہوئے ہیں ۔ ملک میں غریبوں کی تعداد بڑھی ہے ۔ بہت سارے صاحب نصاب ایسے بھی ہیں جن پر اس سال زکوۃ فرض نہیں۔ ان سب کے باوجود اس ماہ رمضان میں مدرسوں کے لیے نئی امیدیں ضرور وابستہ تھیں۔  لیکن وبا کی دوسری لہر نئی امیدوں  کے وہ تمام چراغ بجھا دئیے جس سے ان مدارس کے دوبارہ گلزار ہونے کے امکانات روشن تھے۔ اگر اس سال بھی مدرسے اپنے حق سے محروم رہ گئے تو یقین جانیں بے شمار مدرسوں کے غبار کبھی جھاڑے نہ جا سکیں گے ۔ نہ تو کوئی مولوی مدرسوں کو لوٹے گا اور نہ ہی بچے اس  دہلیز پر قدم رکھ سکیں گے ۔ اور اگر ایسا ہوا تو ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہوگا ۔ ابھی ماہ رمضان کے چند  ایام باقی ہیں اگر مدرسوں اور دینی اداروں کا ہم خیال نہ  رکھ سکے یقین جانیے ہماری نئی نسلیں دینی علم و معلومات میں بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ ملک میں کرونا کے خطرات اور لاک ڈاؤن کے سبب لوگوں کے لئے سفر مشکل ہے ۔ ایسی صورت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علاقے کے مدرسوں کو اپنے تعاون سے دوبارہ زندہ کریں ۔ حالات کے زیرسائے فی الحال بچوں کا مدرسہ میں آنا ممکن نہیں ۔ لیکن ہم اپنی مدد سے معلمین اور مدرسے کی دیگر اسٹاف کو اتنا یقین دلانے میں کامیاب ہوجائیں یہ قوم آپ کے ساتھ ہے ۔ اگر کہیں معلمین مدرسے سے دور ہوگئے،  علماؤں کی جماعت بکھر گئی اور حفاظ کرام نے مدرسوں سے منھ موڑ لیا تو آنے والی نسلیں دین سے دور ہو جائیں گی جس کی تلافی برسوں میں بھی ممکن ہو سکے گی ۔ اور یقینا تعلیم سے مستقل دور ہونے والے طالب علموں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہماری بچے ہوں گے  جو قوم کے لئے عظیم خسارے کی علامت ہوگی ۔ مدرسوں کے حفاظت کی ذمہ داری ہماری اور آپ کی ہے ہمیں مدرسوں کی بقا قوم کی بہتری کے لیے بہرحال آگے آنا ہوگا ۔ آپ یاد رکھیں کہ ماہ رمضان کے بچے ہوئے چند ایام یقینی طور پر ہمارے مدرسوں کا مستقبل طے کریں گے ۔
 

Recommended