Urdu News

سرخ مولوی ، اسلام اور اشتراکیت

مولانا حسرت موہانی

 مولوی سرخے

وہ الگ زمانہ تھا جب مولوی بھی سرخے ہوا کرتے تھے اور بائیں بازوں سے تعلق رکھنا، اشتراکی اقدار کا چمپئن ہونا علماء کیلئے بھی قابل فخر ہوتا تھا. تب سرخا ہونا گالی نہ تھی… اشترکی ہونا معیوب نہ تھا… بلکہ قابل رشک و مستحسن صفات تھے. دوسرے سیاسی و سماجی تنظیموں اور تحریکوں کے طرح بائیں بازو کے جدوجہد کی قیادت میں بھی علماء سر فہرست ہوا کرتے تھے… مولانا عبدالرحیم پوپلزئی، کسی حد تک مولانا عبیداللہ سندھی ، مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی جید مذہبی عالم بھی تھے، سیاسی لیڈر بھی اور اشتراکی بھی…. اکثر لیفٹسٹوں کے برعکس ان اشتراکی علماء کی سادہ و پر وقار طرز زندگی، قلندرانہ بود وباش، ان کے قول و فعل اور نظریہ و عمل میں ہم آہنگی.. ان کے سچائی و خلوص کے منہ بولتے ثبوت تھے…
مولانا حسرت موہانی… زبان پہ بار خدایا کسی کا نام آیا… خوبصورت رومانی لب ولہجے کے شاعر مولانا حسرت موہانی… نہایت بھدے شکل کے مالک تھے… جس کی تلافی قدرت نے دوسرے بہتر شکلوں میں کی تھی… انتہائی نفیس شخصیت رکھتے تھے.. خوش لباسی کیساتھ تخلیقی ملکے، ذہانت و حاضر جوابی میں بے مثال تھے… عام راۂے اور عومی توقعات کی مکمل برعکس ہر بات کہنے کی جرات رکھتے اور جو دل میں آتا سٹیج و منبر پر بے نیازانہ بولتے تھے.. آج کی نشست میں مولانا سے وابستہ چند واقعات قارئین کے نظر.
ڈیورنڈ لائن سے نیپال و برما تک انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے… جہاں جلسہ اجلاس ہوتی ایک بوریا بستر، ایک چھتری لے کر جاتے… ریل میں تھرڈ کلاس سفر کرکے اترتے تو ایک دنیا استقبال کیلئے ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوتی… لوگ ایک دوسرے کو دھکے دیتے کہ مولانا کے بستر اور چھتری تبرکا اٹھانے اور ان کے جاۂے قیام پہنچانے میں دوسروں سے نمبر لیں… مولانا کب کسی کو قلی بنانے دیتے… کہتے پرے ہٹو…یہیں عزت و تقدس انسانی غلامی کی باعث بنی ہے. میں انسانی مساوات پر ایمان رکھتا ہوں… آپ اور میں برابر… . میں نے اپنا سامان خود لے جانا ہے….
خوفناک ھندو مسلم فسادات جاری تھے… ایک ہندو اکثریتی علاقے میں مولانا سڑک کے کنارے جائے نماز بچائے نماز پڑھ رہے تھے… سابق صدر ال انڈیا کانگریس، پارلیمنٹ ممبر تھے. لیڈری، شہرت، شاعری، مقبولیت عروج پر تھے… اور ارد گرد کے حالات میں دہشت پھیلانے والوں کیلئے سب سے زبردست ٹارگٹ… مقامی حکام نے بہت سمجھایا کہ اردگرد ہزاروں لاشیں پڑھے ہیں… لوگ مر رپے ہیں… زندہ جلائے جا رہے ہیں… ایسے میں یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ مولانا کسی کے مانتے کب تھے… نماز جاری رکھی… حکام سے کچھ نہ بن پڑا تو وزیراعظم نہرو کو فون کیا کہ مولانا ممبر قومی اسمبلی بھی تھے اور نہرو کے ساتھی بھی… وزیراعظم کو ریکویسٹ کی کہ مولانا اپ کے دوست ہیں ان کو سمجھائیں… نہرو نے مولانا کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے تاکید کی. فورا پولیس کے سپیشل دستے بھیج دئے کہ مولانا کے اردگرد حصار بنائیں تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے اور جب نماز سے فارغ ہو تو گھر تک سیکورٹی دیں.
مولانا نماز سے فارغ ہوئے تو آرام سے گھر کی راہ لی… ساتھ جاتے ہوئے پولیس والوں میں کسی نے سوال کیا مولانا اپ پاکستان کیوں منتقل نہیں ہوتے؟
جواب دیا پاکستان جاکر کوئی مسلمان، کافر بنائے اور قتل کرے اس سے بہتر ہے ھندوستان میں مسلمان بنوں.
مولانا نظریات کے پکے سوشلسٹ تھے…." انقلاب زندہ باد" کا نعرہ ان کی تخلیق ہے… دیگر چند شخصیات کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے بانی تھے.. سجاد حسن ظہیر نے اپنی کتاب "روشنائی" میں لکھا ہے کہ ترقی پسند تخلیقکاروں کے ایک کانفرنس میں مولانا کو دعوت تھی. تانگے میں کانفرنس ہال تشریف لائے… سجاد ظہیر لاؤڈ-اسپیکر پر بائیں بازوں کے آئیڈیلز پر تقریر کر رہے تھے… مساوی تقسیم رزق، سماجی و سیاسی برابری، مساوات… وغیرہ وغیرہ… مولانا سے رہا نہ گیا… اٹھے… سجاد ظہیر کے ہاتھ سے مائیک کھنچی اور بولے کیوں منافقت کر ر رہو؟ الفاظ کے ہیر پھیر سے کیا مطلب… سیدھا اور واضح الفاظ میں کہو "ہم سوشلزم چاہتے ہیں!"
گاندھی اپنی ذات میں پوری انڈیا تھے. ایک دنیا ان کے سامنے اٹھتی بیٹھتی تھی… انڈیا سے امریکہ تک ہر ذات اور رنگ و نسل کے لوگ، مرد عورتیں خود کو گاندھی کے چیلے کہہ کر فخر کرتے تھے… مولانا مرد قلندر تھے…. گاندھی کو کب خاطر میں لاتے…کہتے تھے اہمسا اور عدم تشدد کہاں کا فلسفہ ہے؟ یہ اپنی اقتدار بچانے کیلئے انگریز سازشی، سامراجی ذہن کی اختراع ہے… اور گاندھی انگریز ایجنٹ… لہذا قسم کھائی تھی کہ کبھی گاندھی سے ہاتھ نہیں ملائیں گے…. گاندھی محفل و مجلس میں آتے تو مولانا ہاتھ کھینچتے… گاندھی جی سٹپٹا جاتے… لوگ حیران ہوتے… لیکن مرد قلندر مولانا کب سوشل مجبوریوں کو توجہ دیتے! اس کے باوجود ال انڈیا کانگریس کے صدر منتخب ہوئے!
بطور ممبر انڈین نیشنل اسمبلی مولنا صرف ایک معاوضہ لیتے: عام تانگے میں انے کی دو آنے کرایہ… کہتے تھے اسمبلی آنے جانے کیلئے تانگے کا کرایہ اتنا ہی ہے…. تھرڈ کلاس میں سفر کرتے تھے. ایک بار کسی نے پوچھا مولانا تھرڈ کلاس کیوں سفر کرتے ہیں؟ " جواب دیا" کیونکہ فورتھ کلاس ہے ہی نہیں!. بطور پارلیمنٹیرین تمام سہولیات و مراعات کو مسترد کیا… کہتے تھے میں اشتراکی ہوں… اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ سہولیات و مراعات اکھٹے نہیں چل سکتے…
 
رشید یوسفزئیمولوی
( بہ شکریہ ایاز انجم )
 
 
 

Recommended