Urdu News

افسانوی مجموعہ ’’بہروپ‘‘ کی رسم اجرا اور مذاکرہ کا انعقاد

افسانوی مجموعہ ’’بہروپ‘‘ کی رسم اجرا اور مذاکرہ کا انعقاد

افسانوں میں پہلے ماضی کی بات ہوتی ہے آج آصف نقوی نے حال کو اپنا موضوع بنایا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سماجی تقاضوں کے تحت فن کار نے اپنا زاویہ نظر تبدیل کیا ہے۔

ان خیالات کا اظہار معروف افسانہ نگار اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر طارق چھتاری نے کیا وہ آج کنیڈی آڈیٹوریم کے وی آی پی لاؤنج میں پروفیسر آصف اختر نقوی کے افسانوی مجموعہ ”بہروپ” کی رسم اجرا اور مذاکرہ کے موقع پر صدارتی خطبہ پیش کررہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آصف نقوی کا تعلق میوزولوجی ڈیپارٹمنٹ سے ہے وہ چاہتے تو انگریزی میں بھی کہانیاں لکھ سکتے تھے لیکن انہوں نے اردو میں لکھنے کو ترجیح دی، اس سے نہ صرف ان کی اردو کے تئیں محبت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تخلیق اگر مادری زبان میں ہو تو فنکار یا تخلیق کار جو اصل بات کہنا چاہتا ہے وہ آسانی سے کہہ سکتا ہے۔

پروفیسر طارق چھتاری نے آصف نقوی کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے افسانے انگریزی کی اصطلاح فیکشن کے قریب ہیں جو فیکٹ یعنی حقیقت اور فکشن سے مل کر بنی ہے۔

معروف ادیب و شاعر پروفیسر سید سراج اجملی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آصف نقوی کے افسانوں کے موضوع، زبان و بیان اور کردار نگاری پر بھرپور روشنی ڈالی،انہوں نے کہا کہ آصف نقوی کے افسانے انسان کی رذالت اور انسانی خصلت کو طشت ازبام کرتے ہیں. ان کے افسانوں میں کردار و مقامات جو جانے پہچانے سے لگتے ہیں وہ قاری کی توجہ اور اس کے مطالعہ کو مہمیزکرتے ہیں اور وہ افسانہ ختم کر کے ہی دم لیتا ہے۔

Recommended