Urdu News

ممتاز نقاد اور ادیب پروفیسر شمیم حنفی کی دلکش شخصیت پر ڈاکٹر خالد علوی کا خوبصورت مضمون

ڈاکٹر خالد علوی ، پروفیسر شمیم حنفی مرحوم اور ڈاکٹر باسط خٹک

شاعر اور نقاد شمیم حنفی کی یاد میں

(جتنے روشن فکر اور پرجوش وہ شاعری کے ساتھ تھے، اپنی ذاتی زندگی میں اتنے ہی نرم مزاج تھے)
تحریر: ڈاکٹر خالد علوی
ترجمہ: عبدالباسط خٹک
ایسے لگتا ہے کہ کووڈ نے اردو دنیا میں ایک بھی ہر دل عزیز، خلیق اور فاضل کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے بعد، اس وبائی مرض نے نقاد، شاعر ، ڈرامہ نگار اور میرے تقریباً چالیس سال سے ایک پرانے دوست شمیم ​​حنفی کو چھین لیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم ان کے ہم پلّہ ایک اور دانشور دوبارہ پا سکیں گے۔ لوگ پیار سے انہیں شعبہ اردو میں تاریخ، ثقافت، پینٹنگز اور فنون لطیفہ کا پروفیسر کہتے تھے۔
ٹینیسی ولیمز نے کہا تھا، "موت بہت جلدی آ جاتی ہے ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ آپ زندگی سے آدھے واقف ہوں ۔۔۔۔ دوسرے سے سامنا ہو جاتا ہے" لیکن شمیم ​​حنفی کے معاملے میں یہ سچ نہیں تھا، وہ زندگی اور موت دونوں سے بخوبی واقف تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ زندگی ہے، موت نہیں، جو بے کنار ہے۔ انہوں نے زندگی کا ایک ایک لمحہ پڑھنے، لکھنے اور سوچنے کے لئے صرف کیا۔ ان کے بقول:
تمام عمر نئے لفظ کی تلاش رہی
کتاب درد کا مضموں تھا پائمال ایسا
اپنی طالب علمی کے دور سے ہی وہ ایک شاعر اور نقاد کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔ اس وقت، الہ آباد یونیورسٹی کو مشرق کا آکسفورڈ کہا جاتا تھا اور فراق گورکھپوری، پروفیسر ایس سی دیب، ڈاکٹر تاراچند اور ہری ونش رائے بچن جیسے اعلی صلاحیت والے ماہرین تعلیم فیکلٹی ممبران تھے۔ یونیورسٹی اساتذہ کے پاس 'جمعرات کلب' کے نام سے ایک ادبی کلب تھا، جو ہر جمعرات کو سینئر شاعروں اور ادیبوں کو مدعو کیا کرتا تھا۔ الہ آباد یونیورسٹی کی تاریخ میں حنفی واحد طالب علم تھے جنہیں 'جمعرات کلب' کی رکنیت دی گئی تھی۔
شمیم حنفی نے تنقیدی اور تخلیقی تحاریر پر مشتمل دو درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ لیکن جس کتاب نے ان کی طرف سب کی توجہ مبذول کرائی وہ 'جدیدیت کی فلسفیانہ اساس' تھی۔ وہ ترقی پسند مصنفین کا دور تھا اور کسی نئے مصنف کے لئے ان سے اختلاف کرنا سہل نہیں تھا لیکن انہوں نے ایسا کیا اور اردو ادب میں جدیدیت پسند تحریک کے محرک کے طور پر پہچانے گئے۔ وہ نہ صرف فراق گورکھپوری کے طالب علم تھے بلکہ ایک فائق پیروکار اور مداح بھی تھے، اور اپنے استاد شاعر پر دو کتابیں بھی تحریر کیں۔ ایک سیمینار میں، میں نے مختلف زاویوں کے ساتھ گورکھپوری پر ایک مقالہ پڑھا تھا ۔۔۔۔ جبکہ ان کے بعض اشعار کی تعریف کرتے ہوئے، میں نے ان کی شاعری کی لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں پر سخت تنقید کی تھی۔ ہر ایک کا خیال تھا کہ مقالہ سے حنفی ناراض ہو جائیں گے، لیکن وہ حیران رہ گئے جب حنفی نے اسے بہت پسند کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مجھ سے متفق نہیں ہیں، لیکن اتفاق رائے اور پسندیدگی دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کی دو کتابیں 'کہانی کے پانچ رنگ' اور 'غزل کا نیا منظرنامہ' نے اردو نقادوں کی سوچ کے انداز کو بدل دیا۔ بہت سارے نقادوں کا خیال ہے کہ ان دو کتابوں نے شاعروں اور کہانی کاروں کو بھی متاثر کیا، اور اردو شاعری اور افسانوں میں ایک قابل ذکر تبدیلی پیدا کی۔
شمیم حنفی نے اپنے تحریری کیریئر کا آغاز ہندی اخبار نئی دنیا اندور سے کیا۔ اتفاق سے، ان کی پہلی شائع شدہ کتاب بھی ہندی میں تھی۔ حنفی نے ہمیشہ ہندی اور اردو کے مابین فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ ہندی اور اردو، دنیا کی واحد دو زبانیں ہیں جو نہ صرف قریب ہیں بلکہ ایک ہی گرائمر اور ذخیرہ الفاظ کے تحت مختلف رسم الخط کی حامل ہیں۔ جو لوگ اردو میں تخلیق کرنا چاہتے ہیں انہیں اچھی ہندی اور اس کے بالعکس سیکھنا چاہئے۔ وہ یہ جان کر بہت مسرور ہوئے کہ میرٹھ یونیورسٹی نے اس عمارت کو خسرو بھون سے موسوم کیا ہے جہاں اس کے اردو اور ہندی شعبے واقع ہیں۔
میں اس سے باقاعدگی سے ملتا رہا تھا اور مجھے ایک بھی موقع یاد نہیں آتا جب انہوں نے کسی کے بارے میں بات کرتے وقت سخت الفاظ کا استعمال کیا ہو۔ ان کی کتاب 'ہم نفسوں کے درمیان' میں ان لوگوں کے قلمی خاکے ہیں جن سے ان کی زندگی میں ملاقات رہی تھی، لیکن تین سو صفحات کی کتاب میں ایک بھی سخت لفظ نہیں مل سکتا۔ میں نے اسے بتایا کہ ان کی انتہائی نرمی نے اس کتاب کو نقصان پہنچایا ہے، اگر وہ اپنے دوستوں کی کوتاہیوں کی بھی تصویر کشی کرتے تو کتاب مزید دلچسپ بن جانی تھی لیکن وہ قائل نہیں ہوئے اور مصر رہے کہ اس کے سبھی جاننے والے ایسے ہی ہیں۔
دوسری طرف، وہ شعر اور دوہوں کی درست ادائیگی کے بارے میں بہت سخت تھے۔ ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران ایک معروف شخص نے ایک شعر بے وزن پڑھا جسے شرکاء نے نوٹ بھی کیا لیکن اس کی نشاندہی کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وہ شخص بہت سارے اداروں اور ایوارڈز کے مختار تھے لیکن شمیم ​​حنفی نے شعر کو درست کرنے کو ترجیح دی۔ نتیجتاً پورا مباحثہ دوبارہ ریکارڈ کرنا پڑا۔
پچھلے سال، ایک ادبی تنظیم 'جشنِ ہند' نے حنفی کو لیونگ لیجنڈ ایوارڈ سے نوازا تھا۔ جب میں نے ان کو آگاہ کیا تو اس نے مکرم خاموشی سے سنا اور کہا، "غرورِ محرومی نے ان چیزوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے"
اپنی ذاتی زندگی میں، وہ بہت ہی پر جوش اور مہمان نواز تھے۔ ایک بار، جب میں ان کے ہاں ایک دوست کے ساتھ گیا تو وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور چائے کے ساتھ مٹھائیاں، کھجوریں اور حلوہ پیش کیا۔ جب دوسری بار چائے پیش کی گئی، تو میرے ساتھی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بہت طویل عرصے کے بعد ان سے مل رہا ہوں؟ نہیں, صرف تین دن بعد، میں نے جواب دیا.
وہ کئی سال سے کینسر سے نبرد آزما تھے، لیکن میں نے انہیں کبھی بھی خوفزدہ نہیں پایا۔ ایک بار انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ انتہائی موزوں جگہ پر رہ رہے ہیں، کیونکہ ان کی رہائش ایک اسپتال اور جامعہ قبرستان کے بہت قریب ہے اور اس عمر میں صرف ان دو چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ہفتے میں انہوں نے صرف ان دو مقامات کا استعمال کیا۔
ان کا ایک شعر ہے:
گرنی ہی تھی اک روز یہ دیوار بدن کی
یہ راہ کا پتھر بھی ہٹانے کے لیے تھا

Recommended