اعجاز زیڈ ایچ
آج – 22؍جنوری 1999نامور ڈرامہ نگار،معلم اور معروف شاعررضی اختر شوقؔ کا یومِ وفات ہے۔
نام خواجہ رضی الحسن انصاری اور تخلص شوقؔ تھا۔ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۳ کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ سے انھوں نے بی اے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔
یہاں آکر انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور ریڈیو پاکستان سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا ۔رضی اختر شوق ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ایک بہترین ڈرامہ نگار بھی تھے۔
عمر کے آخری دنوں میں وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اسی مرض میں ۲۲؍جنوری۱۹۹۹ کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
ان کے دوشعری مجموعے ’’میرے موسم میرے خواب‘‘اور’’جست‘‘ کے نام سے چھپ گئے ہیں۔ ۲۰۰۵ میں انہیں علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:276
معروف شاعر رضی اختر شوقؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔
مجھ کو پانا ہے تو پھر مجھ میں اتر کر دیکھو
یوں کنارے سے سمندر نہیں دیکھا جاتا
—
نہ فاصلے کوئی رکھنا نہ قربتیں رکھنا
بس اب بقدر غزل اس سے نسبتیں رکھنا
—
تم نغمئہ ماہ ہو، انجم ہو، تم سوزِ تمنا کیا جانو
تم دردِ محبت کیا سمجھو، تم دل کا تڑپنا کیا جانو
—
دو بادل آپس میں ملے تھے پھر ایسی برسات ہوئی
جسم نے جسم سے سرگوشی کی روح کی روح سے بات ہوئی
—
ایک ہی آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ
—
ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دلِ سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
—
ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ