Urdu News

اردو کے فروغ میں تصنیفی اداروں کا کردار اہم ہے 

اردو کے فروغ میں تصنیفی اداروں کا کردار اہم ہے 

ابوالبرکات شاذ قاسمی تعلیمی وملی فاؤنڈیشن جگیراہان بتیا

اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں تصنیفی اداروں کا نہایت ہی اہم کردار رہا ہے آزادی سے قبل جب کہ ہندوستان میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہو رہی تھی اس وقت برصغیر ہند و پاک میں تصنیفی ادارے قائم ہو رہے تھے جو خوبصورت علمی و ادبی کتابیں تصنیف کر کے اردو کی شان میں اضافہ کر رہے تھے مگر افسوس کے تقسیم ملک کے بعد ایسے اداروں میں سے کچھ اہم ادارے پاکستان میں چلے گئے مگر وہاں بھی ان کی علمی و ادبی خدمات کا سلسلہ جاری رہا اردو زبان و ادب کے فروغ کی تاریخ ان کی خدمات کا تذکرہ کئے بغیر ادھوری اور ناقص ہے اس قسم کے اداروں میں کچھ ایسے ادارے بھی تھے جن کا کام صرف چھاپہ کی حد تک محدود تھا مگر کچھ ایسے بھی تھے جہاں کتابوں کی چھپائی، تصحیح و ترجمہ نگاری کا کام بھی ہوتا تھا اور جو اردو ادب اور تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کا کام انجام دے رہے تھے ہم اس مضمون میں ایسے ہی کچھ تصنیفی اداروں کی خدمات کا مختصر طور پر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

“دارالمصنفین” اسی قسم کا ایک ادارہ تھا جس کو علامہ شبلی نعمانی نے  قائم کیا تھا اور جو اپنے قیام سے لے کر آج تک اردو کی خدمت انجام دے رہا ہے اسلامیات اور اسلامی علوم کی تحقیق و تصنیف کے علاوہ اس ادارے نے تالیف و ترتیب اور تلخیص کا کام بھی بڑے پیمانے پر انجام دیا یہاں سے ایک مشہور رسالہ “المعارف”بھی نکلتا تھا جو ابھی بھی پورے آب و تاب ساتھ نکلتا آ رہا ہے معیار و مرتبہ اور انداز کے لحاظ سے دیگر رسالوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس ادارے نے خاص طور سے تحقیق و تلخیص کو اپنا  بنیادی پیشہ بنایا جس کی وجہ سے اس کی بیشتر کتابیں تحقیقی اورمعیاری ہوتی ہیں۔ سید سلیمان ندوی ،عبدالسلام ندوی، صلاح الدین اور عبدالرحمان وغیرہ جیسے اردو ادب اور اسلامی علوم و فنون کے اساطین علم و فن اس ادارے سے ہمیشہ وابستہ رہے جنہوں نے اپنے معیاری ومستند تحقیقات کے ذریعے اردو کونادر و نایاب کتابوں سے مالامال کیا اس ادارے کی اہم تصانیف میں تاریخ اسلام ،اصول تاریخ ،تاریخ ہند اور فقہ وعقائد کافی اہم ہیں “اسلام میں رواداری”دارالمصنفین سے شائع ہونے والی ایک ایسی کتاب ہے جس کی علمی دنیا میں بہت پذیرائی ہوئی اس کے علاوہ ادب وشاعری سے متعلق بھی بے شمار کتابیں یہاں سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

جن تصنیفی اداروں نے  اردو کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ان میں” مکتبہ نول کشور “،” تاج کمپنی لاہور” بھی ہیں جن میں ہر طرح کی اردو کتابیں چھپتی تھیں ان تصنیفی اداروں کی خدمات انیسویں صدی سےشروع  ہوکربیسویں صدی تک جاری رہیں۔ انیسویں صدی کے تصنیفی اداروں میں”دار الترجمہ”عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد اپنی خدمات کے سلسلے میں بے حد مقبول ہے  ریاست حیدرآباد کی تعلیم و ترقی کو فروغ دینے کے لیے آصف سابع “میر عثمان”نے اردو کو ذریعہ تعلیم بناکرایک یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا جس کے نصاب کے لئے کتابوں کی ضرورت تھی اسی مقصد کی تکمیل کےلئے 1912 میں “دار الترجمہ” کا قیام عمل میں آیا اس ادارہ میں سائینس، انجینئرنگ، قانون اور علوم عمرانیات پر انگریزی زبان سے اردو میں لاتعداد کتابیں منتقل ہوئیں چونکہ اس ادارے کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی اس لیے اس نے خوب کام کیا مختلف علوم و فنون کی 386 کتابیں ترجمہ ہوئیں اور  اردو کے قالب میں سج دھج کر مطالعہ کے میز پر حضر ہوئیں ،اردو کے جن قلم کاروں کی خدمت  اس ادارے کو حاصل  رہی ان کی فہرست طویل ہے جن میں عبد اللہ عمادی ،عبد الحلیم شرر ،مرزا محمد ہادے رسوا، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے جنہوں نے اپنی خدمات کے ذریعے اس ادارے کے مقام و مرتبہ کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کو فروغ دیا  بسویں صدی کے تصنیفی اداروں کے زمرے میں”قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان و ادب نئی دہلی” کا تذکرہ بھی کرنا چاہئے  کل ہندستان میں اردو کی ترقی اور شعر و ادب کی کتابوں کی اشاعت کے لئے حکومتی اعلامیہ کے بعد اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا جس کی ذمہ داری نایاب و نادر کتابوں کی اشاعت، تحقیقی کتابوں پر انعامات اور دیگر علوم و فنون کی کتابوں کواردو میں منتقل کرنا ٹہری اسی کے ساتھ بچوں کے ادب جیسے موضوعات پر ادیبوں سے کتابیں طلب کر کے اس کی اشاعت کو قبول کرنا بھی اس کی اہم ذمہ داری ہوئی اس ادارے کے مختلف مراکز ملک کے شمالی و جنوبی صوبوں میں قائم کئے گئے  اور اس سے متعلق افراد بحال کئے گئے اس طرح یہ ادارہ اردو کی خدمت میں اپنا مثالی  کردار ادا کرتا آرہا ہے۔

تصنیفی اداروں کی خدمات میں ایک اور اہم ادارہ بھی بے حد مقبول رہا ہے اور وہ ہے “حالی بک ڈپو”اردو کے اس تصنیفی ادارے نے اردو کے مشہور نثرنگار، شعرا،افسانہ نگار،مورخ، سوانح نگار اور دوسرے علوم و فنون کی نمائندگی کرنے والے قلم کاروں کی ایک جامع کتاب “مصنفینِ اردو” کے نام سے شائع کیا جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے ہر فن کے بہترین ادیبوں کی سوانح اور ان کی خدمات کا تعارف موجود تھا اردو کے قدیم  تصنیفی اداروں میں مولانا حالی سےمنسوب اس ادارے کی بڑی اہمیت حاصل ہے اسی طرح اردو کے فروغ دینے والے اداروں میں “مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ” کا نام لینا بھی ضروری ہوگا کیوں کہ اس ادارے نے جب ترقی کیا تو اس کی مختلف شاخیں ملک کے طول و عرض میں قائم ہوئیں چنانچہ علی گڑھ، بمبئی ، دہلی وغیرہ میں اس کی شاخیں موجود ہیں اس ادارے سے بچوں کے لئے ایک ماہنامہ “پیام تعلیم “کے نام سے نکلتا تھا جسے ہم جیسے طلباء شوق سے پڑھا کرتے تھے اور اپنی ناتمام کاوشیں شائع ہونے کے لئے ارسال کیا کرتے تھے لا تعداد اردو کے جدید و قدیم قلم کاروں نے اس سے فیض حاصل کیا ہوگا ادبی صورت حال سے آگاہی کےلیے “ادب نما”بھی اس ادارے کا مقبول ماہنامہ رہا ہے۔

   سرسیداحمد کی خدمات اردو کے فروغ کے حوالے سے محتاج تعارف نہی ان ہی  کے اشارے پر اردو میں علوم و فنون کی کتابیں شائع کرنے کی خاطر”انجمن ترقی اردو” کا قیام۔ عمل میں آیا 1903 میں مولوی عبد الحق نے اس کے کام کاج کو اپنے ہاتھوں لیا اور  اسے ملک گیر شہرت دلائی اس کے اغراض و مقاصد علی گڑھ کے ادیبوں اور شاعروں کی تصانیف کی اشاعت قرار پایا اس ادارے کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ اس سے علی گڑھ یونی ورسٹی کے اکثر اساتذہ جڑے رہے ایک دو ماہی رسالہ “الفاظ”بھی یہاں سے نکلا جو بعد میں بند ہوگیا اس کا اصل مقصد ادبی خدمات کو عام کرنا تھا مگر اس کے علاوہ تاریخ،ادب و ثقافت کے موضوع پر بھی عمدہ کام یہاں پر کیا گیا ۔

بیسویں صدی کے جن تصنیفی اداروں نے اردو ادب کی بیش بہا خدمت انجام دیں ان میں “ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس” دہلی کو کافی شہرت حاصل ہے اس ادارہ نے شعر و ادب میں کی جانے والی  تحقیقات کو منظر عام پر لانے میں گراں قدر کوششیں کیں ابتدا میں اس کے کام کا دائرہ  کتابوں کی فروخت تک محدود تھا لیکن رفتہ رفتہ اس نے اردو کی مکمل خدمات کی ذمہ داری قبول کر لی  خاص طور سے پاکستان کے مشہور و معروف تخلیقات و ادبیات کو ہندستان گیر شہرت دلانے میں “ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس”کے کارناموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسی طرح گزشتہ صدی کا ایک اور اہم ادارہ “فروغ اردو” لکھنؤ بھی ہے۔

 اس ادارے کے توسط سے ایک رسالہ “فروغ ادب” بھی شائع ہوا جس کے خاص نمبروں میں حالی، شبلی اور چکبست  کو خاص اہمیت حاصل ہے اس ادارے کی جانب سے تنقید و تاریخ کے علاوہ شعر و ادب کی بے شمار کتابیں شایع ہوئیں  جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے فروغ اردو نے جہاں نئی کتابوں کی اشاعت پر توجہ دی وہیں قدیم نادر و نایاب کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کیا اردو کے بیشتر نقادوں کی کتابیں، قدیم تذکرے ،مختلف ناول اور لغات کی اشاعت کا کام اس ادارے نے انجام دیا اس ادارے کے کتب خانے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اس کی خدمات میں تعطل پیدا ہوئی اور اب پہلے جیسی اس کی خدمات؛ “وسیع تر” تو نہی مگر اس کی “وسعتِ خدمات” کو نظر انداز نہی کیا جاسکتا ۔

جن تصنیفی اداروں نے اردو کے فروغ میں اپنا نمایان کردار ادا کیا ان میں ایک بڑا اور اہم نام “نسیم بک ڈپو” کا بھی ہے اس  ادارے نے اپنی شروعات اردو کی تاریخی اور اہم علمی و ادبی کتابوں کی اشاعت کے ساتھ کیا عبد الحلیم شرر لکھنوئی،صادق حسین سردھنوی،اسلم جیراچ پوری،آل احمد وغیرہ جیسے بے شمار معروف و مشہور ناول نگاروں کی ناولیں تصنیف پاکر منظر عام پر آئیں اس کا ایک اہم کارنامہ ادب اطفال کی خدمت کرنا بھی تھا اس کے علاوہ تنقید و تحقیق کے اعتبار سے بھی اس ادارے کی خدمات قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی رہی ہیں مگر ان سب میں افسانوی ادب اور ضخیم و تاریخی ناولوں کی اشاعت میں اس کو ملک گیر شہرت حاصل رہی ہے۔

غرض کہ اردو زبان و ادب کےفروغ و ترقی میں تصنیفی اداروں کا نہایت ہی اہم کردار رہا ہے یہ چند مشہور و معروف کا تذکرہ ہے ایسے بہت سے ادارے اور بھی ہوں گے جن کی خدمات کا اعتراف ہونی چاہئے اردو نسلوں کو ان کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے ۔

Recommended