Categories: فکر و نظر

کمرہ 312 ( پہلی قسط)

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>ڈاکٹرعلی کاوسی نژاد</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>شعبہ ٔ اردو، یونیورسٹی آف تہران</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>کمرہ <span dir="LTR">312</span>کے تحت ڈاکٹر علی کاوسی نژاد نے پاکستان میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں اوربہت سی یادوں کو قلم بند کیا ہے۔ ڈاکٹر علی کاوسی شعبۂ اردو، تہران میں اردو کے استاد ہیں۔ انڈیا نیرٹیو اردو ٹیم ان کی تحریر کو بہت اہتمام سے شائع کر رہا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ قاری ڈاکٹر علی کاوسی نژاد (جو کہ ایرانی النسل ہیں اور اردو زبان و ادب کی خدمات پر مامور ہیں) سے واقف ہو سکے۔</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
سنہ 2007 کو مجھے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ اردو میں ایم۔ اے اردو کا داخلہ ملا اور میں نہایت خوشی اور عجلت میں تہران سے ماہان ائیر کے ذریعے سیدھا لاہور پہنچا۔ ایران اور پاکستان کی ثقافت ایک دوسرے سے ملتی جلتی نظر آتی ہوئی پھر بھی ان میں فرق ضرور نظر آتا ہے۔ ائیرپورٹ پر اترے تو مجھے اردو کا نامانوس لب و لہجے سے افتاد پڑی۔ مجھے کافی حیرت ہوئی خدایا یہ کونسی اردو ہے جو مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ قُلیوں سے بات کرتے ہوئے میں تو حواس باختہ ہو چکا تھا۔ زبان تو اردو سے ملتی جلتی تو نظر آتی ہے لیکن شاید میرے کانوں کو دوران پرواز خرابی پیش آئی جو مجھے اس طرح کی اردو ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہی۔ اپنے ہاں سوچا کمبخت تو نے اردو میں بی ۔اے کر کے کیا حاصل کیا سیدھے اپنے گھر چلے چلو بہر کیف مجھے گیٹ کی دوسری طرف ڈاکٹر علی بیات اور ڈاکٹر محمد کیومرثی نظر آئے اب جان میں  جان آ گئی اور میرے مضمحل شدہ اعضا بحال ہوئے۔ عزیزوں سے گلے لگا کے شکایت کی ارے مجھے کیوں یہ والی اردو سمجھ نہیں آ رہی۔ ڈاکٹر علی بیات گویا ہوئے: "بھیا یہ تو پنجابی بول رہے تھے تمہاری ابھی سے پنجابی سننے کی پریکٹس شروع ہو گئی ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں آپ کو دھیرے دھیرے یہ زبان آ ہی جائے گی بس اپنی ہمت نہیں ہارنا۔" اپنے عزیز اساتذہ کرام کی معیت میں گاڑی میں بیٹھ کر لاہور ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے لاہور کی شاہراہوں میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ مجھے لاہور کی یہ سڑکیں کافی انجانی لگ رہی تھیں اور تہران کی لمبی چوڑی شاہراہوں کے مقابلے میں چھوٹی نظر آ رہی تھیں البتہ شاید ماحول کی تبدیلی مجھ پر کافی اثرات چھوڑ رہی تھی اور میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر گھوم پھیر کر ہماری منزل پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس والے ہوسٹلز دور سے نظر آنے شروع ہو گئے۔ ہاسٹل نمبر 2 کے سامنے گاڑی رُک کر ہم گاڑی  سے اتر ے۔ ہوسٹل مجھے عجیب سا لگا جیسے میں ایک قید خانے میں داخل ہو رہا ہوں۔ سیڑھیوں کو اوپر چڑھتے ہوئے خوف طاری ہونا شروع ہوا ہمارے آگے اکبر نامی ملازم سامان اٹھائے ہوئے چلا جا رہا تھا اور میں ورطہ ءحیرت میں مبتلا انجانی دیواروں پر میری نظریں جمی ہوئی تھیں گویا یہ ایک ٹھوٹی پھوٹی آسیبی محل تھی جس کے مکین کب کے اور کہیں کے تھے۔ البتہ یہ میرے تصوارت تھے جو مجھے بُری طرح جھنجھوڑ رہے تھے۔ ہائے ناکامی کی آوازیں مجھے گھسیٹ کر اس ویرانے میں کیوں لائیں۔ مجھے تیسری منزل پر کمرہ نمبر 312 ملا اور یہ وہ واحد کمرہ تھا جسے میرے لیے مختص کیا گیا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے مسلسل چھے برس اسی کمرے کی دیواروں سے مانوس ہونا پڑے گا۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>کمره </strong><strong><span dir="LTR">312</span></strong><strong>(دوسری قسط)</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہاسٹل میں دو تین ایرانی لڑکے رہائش پذیر تھے جو فارمیسی کر رہے تھے ان سے میری ملاقات رہی  وہ تعلیمی سرگرمیوں میں مگن تھے اور مجھ جیسے نووارد کے لیے ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا پھر میں نے فیصلہ کیا ان کے لیے اسباب زحمت نہ بنوں اور اپنی رہائشی سامان کا خود بند و بست کرلوں۔ کمرہ 312 میرے مقدر میں لکھا گیا تھا اور میرے ہمسائے میں ایک پاکستانی لڑکا قیام پذیر تھا جو ملک سے باہر اپنی اعلی تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا۔ ان سے میرا سلام دعا ہوا اور مجھے برابر یہ بات دہرا رہے تھے کہ تجھے اردو پڑھ کر کیا کرنا ہے اور میرے پاس ایک معصومانہ جواب تھا کہ مجھے اردو زبان سے کافی محبت ہے۔ شاید وہ اپنے یہاں سوچ رہا ہوگا کہ اس کا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا۔ ویسے وہ پاکستان سے باہر اپنی تعلیم جاری رکھنا تھا اور میرا اس سے کیا لینا دینا تھا۔ میں نے 15 نومبر 2007 لاہور کی سرزمین پر قدم رکھا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب لال مسجد کا واقعہ پیش آیا تھا اور پاکستان کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ لاہور آنے سے پہلے میرے والد صاحب نے مجھے پاکستان آنے سے منع کیا تھا لیکن میرے سر پر اردو زبان کی محبت کے بادل منڈلا رہے تھے۔ عام طور پر غیر ملکیوں کو ایک کمرا الاٹ کیا گیا تھا اور مجھے پہلی رات بیچاری سی چارپائی پر لیٹ کر سونا پڑتا تھا۔ کمرا  میرے ذاتی سامان کے علاوہ کسی آرام دہ سامان سے بالکل عاری تھا اور بڑا سا پنکھا تھا جسے دیکھ کر سزا یافتہ قیدیوں کی یاد آ رہی تھی۔ سفر سے تھکا ہارا کمرے میں آنکھ لگ گئی اور اچانک نیند آئی۔ فجر کے وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ایک آدمی میرا گلا گھونٹ رہا ہے اور مجھے اس کے مضبوط ہاتھوں سے گلو خلاصی کا کوئی راستہ نہیں۔ مجھ پر خوف اور کپکپاہٹ طاری ہو چکی تھی اور حواس بحال ہونے میں تھوڑی دیر لگی۔ مجھے یوں لگا کہ یہ کمرا مجھ سے پہلے کسی جن یا بھوت کی رہائش میں تھا اور میں نے زبردستی سے اس پر اپنا قبضہ جاری رکھا ہے۔ جو کچھ میں نے ایران سے ساتھ لایا تھا اس سے ناشتہ کیا اور مجھ میں اورینٹل کالج جانے کا شوق بڑھ گیا۔ مجھے دراصل ڈاکٹر علی بیات کے ساتھ اورینٹل کالج جانے کا اردہ تھا لیکن مجھ میں عجلت کا مادہ بدرجہ اتم زیادہ تھا اور چوکیداروں سے پوچھ کر اورینٹل کالج اور اولڈ کیمپس جانے کا راستہ سمجھ آگیا۔ سرسید انٹرنیشنل ہاسٹل کے ساتھ ہوائی پل کراس کر کے نہر کی دوسری طرف مجھے بس نمبر 2 میں سوار ہونا تھا۔ بس آ گئی اور دو تین لڑکے اس کے دروازے کو مضبوطی سے پکڑ کر لٹک رہے تھے مجھے تو بس مل گئی لیکن یہ تو خطرے سے باہر نہیں تھا اپنی عاجزی کا اظہار کر کے مجھے بس کے اندر گھس جانے کی کامیابی ہوئی۔ چہرے پر برابر مسکراہٹ قائم رہی اور مجھے سواریوں سے اولڈ کیمپس جانے کا راستہ معلوم ہوا بعض لوگوں کو میری رنگت اور لب و لہجے سے پتا چلا کہ میں غیر ملکی ہوں ۔جب انہیں معلوم ہوا میں ایرانی ہوں تو احمدی نژاد زندہ باد کے نعرے شروع ہونے لگے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہمارے صدر کی پاکستان میں اتنی مقبولیت کہاں سے ہوئی ان سے وجہ استفسار کیا انہوں نے جواب دیا احمدی نژاد نے امریکہ کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے اور ہمیں بھی ایسا صدر چاہیے جو امریکہ سے دو ٹوک بات کرے۔ جیل روڈ آ گیا مجھے بس سے اتر کر دوسری بس پکڑنی پڑی اور پوچھتے پوچھتے میں اولڈ کیمپس پہنچا۔ یونیورسٹی کے صدر دروازے سے داخل ہوا اور معصومانہ لہجے سے طالب علموں سے اورینٹل کالج جانے کا راستہ دریافت کیا۔ اورینٹل کالج کی درسگاہ آ گئی اور میں داخل ہو کر دو تین طالب علموں سے جو آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے مخاطب ہوا کہ شعبہء اردو کا دفتر کہاں ہے؟مجھے آگے جا کر معلوم ہوا یہ میرے کلاس فیلو ہیں جو کلاس سے غائب یہاں گفتگو میں مصروف ہیں۔ اشفاق رضا نے مجھے اردو ڈپارٹمنٹ کے دفتر میں لے جا کر اظہر صاحب کے سپرد کیا اظہر صاحب نے فی الفور مجھے کلاس میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت سر مرغوب حسین طاہر کلاسیکی شعر و ادب پڑھاتے تھے۔ کلاس میں داخل ہو کر ایک اجنبی لڑکے کو جو کوٹ میں ملبوس تھا طالب علموں کے لیے حیرت کا سبب بنا وہ سب کے سب غور سے مجھے گھور رہے تھے۔ میں پہلے سمجھ رہا تھا کہ ایم۔ اے اردو میں <span dir="LTR">10 </span>کے قریب طالب علم پڑھ رہے ہوں گے لیکن کلاس میں تیس پینتیس کے قریب طالب علم تھے جو بڑی یکسوئی کے ساتھ لیکچر سن رہے تھے۔ بس میں نے کلاس کی آخری کرسی پر براجمان ہو کر لیکچر سننا شروع کیا۔سر مرغوب حسین طاہر کی آواز تو اونچی ضرور تھی لیکن مجھے تمام فقرے ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آ رہے تھے۔ میرے پاس سونی ایرکسن کا موبائل تھا اسے ریکارڈ پر لگا کے لیکچر ریکارڈنگ شروع کی جو بعد میں اپنے کمرے  میں  جا کر غور سے سننا تھا۔ لیکچر ختم ہوا اپنے ہم جماعتوں سے سلام دعا ہوا اور انہوں نے مجھے اپنے اپنے نوٹس دینے کا وعدہ کیا میں غالبا سیمسٹر کے عین وسط میں لاہور پہنچا اور اگلے ہفتے کو میڈ ٹرم کے لیے بھی تیاری کرنی تھی۔ میرے پاکستانی کلاس فیلو مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ میں نے تہران یونیورسٹی سے بی اے آنرز کیا تھا۔ میر تقی میر، مومن، غالب اور دوسرے کلاسیکی شعرا کے بارے میں مجھے کافی معلومات تھیں لیکن جس دھنگ سے مرغوب حسین طاہر کلاس میں اردو کے اشعار زبانی یاد تھے مجھے حیرت ہوئی اور اشعار یاد کرنے کا بھی میں نے فیصلہ کیا۔ میرے کلاس کے لڑکے آپس میں پنجابی میں گفتگو کرتے تھے اور میری ان کی اتنی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کلاس کے فورا بعد یونیورسٹی کی بس پکڑ کر اپنے ہاسٹل پہنچا۔ پتا چلا ہاسٹل انتظامیہ نے روزنامہ جنگ، نوائے وقت اور انگریزی اخبار ڈاون نیوز کا اہتمام کیا ہے جسے ہر وقت آپ آسانی اور سہولت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ ہاسٹل کے لڑکوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ آپ اردو اخبار پیسے دے کر اپنے کمرے میں منگوا سکتے ہیں۔ تو اگلے روز سے میں نے جنگ اور نوائے وقت کے اخبارات منگوا لیے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ پاکستان کے اندرونی حالات اور حالات حاضرہ کے حوالے سے واقفیت ہوئی، ساتھ ساتھ اردو زبان کی  وہ خامیاں دور ہوتی جا رہی تھیں جو مجھے بولتے وقت ستاتی رہیں۔ البتہ پنجابی زبان سمجھنے کی بھی خواہش تھی کیونکہ جہاں کہیں مجھے اس زبان سے واسطہ پڑتا تھا اور مارکیٹ جاتے وقت خریداری اور رکشہ لیتے وقت پنجابی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ مجھے غروب اور رات کے وقت ہاسٹل کے چوکیداروں سے بیٹھ کر پنجابی سننے کی فرصت ملتی۔ پہلے یہ الفاظ ( کتھے-تسی- منو-اتے- اتے) کے الفاظ سمجھ میں آ گیا اور جہاں کوئی فقرہ سمجھ نہیں آیا تو مجھے ( منو کی پتا) کا فقرہ بولنا تھا۔ چوکیدار، مالی، درزی، دھوبی سے پنجابی کی پریکٹس ہوتی تھی اور یوں پنجابی کی سمجھ بوجھ آ ہی گئی لیکن اردو کی وجہ سے مجھے پنجابی زبان میں بولنے کی زیادہ مشق نہیں کی کیونکہ کہیں ڈر تھا کہ اردو زبان سیکھنے کی راہ میں خلل نہ پڑے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<span dir="LTR">alikavousi7@ut.ac.ir</span></p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago