خوشبو پروین
ریسرچ اسکالر،یونی ورسٹی آف دہلی
عادل اسیر دہلوی کی پیدائش 12/ ستمبر 1959 کو دہلی میں ہوئی۔ان کا پورانام عادل رشید تھا۔ انہوں نے اردو سے ایم۔اے کیا۔اس کے بعد تعلیم کے پیشے سے ہی منسلک ہوگئے۔ تصنیف وتالیف اور ترجمہ ان کا خاص میدان رہا۔ انہوں نے بچوں کے لئے بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔
جن میں ”ہمارے سائنس داں،بچوں کی رباعیاں، جھو ٹ مت بولو، پھولوں کی مالا،گلدستہئ نعمت، بچوں کے دوہے، بیربل کی کہانیاں اور آسان نظمیں وغیرہ۔ان کی علمی وادبی خدمات کا اعتراف پوری اردو ادب کی دنیا کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی متعدد اکادمیوں نے انہیں اعزاز واکرام سے نوازا۔ یوں بھی دہلی ایک ایسا شہر ہے جو ہمیشہ علم وادب کا گہوارہ رہاہے۔
اردو کے ارتقا کا تعلق دہلی سے اتنا گہراہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو شاعری کی کون سی ایسی صنف سخن ہے جس کا تعلق دہلی سے نہ ہو۔ رباعی بھی ایک ایسی ہی صنف سخن ہے جو شروع سے اب تک دہلی میں کہی جارہی ہے۔ رباعی کے ساتھ ایک چیز یہ بھی رہی کہ کبھی اسے نشیب تو کبھی فراز کا سامنا کرنا پڑا۔
اکثر وبیشتر شعرا نے منھ کا ذائقہ بدلنے کے لئے رباعی کہی لیکن انہی میں سے ایک ایسا شاعر بھی دہلی میں نمودار ہوا جس نے رباعی کی جانب اپنی توجہ مبذول کی۔شروع شروع میں ان کا علم ادب اطفال کی جانب مائل ہوا اور تا عمر اس میں اپنی شناخت قائم رکھی۔
رباعی کی خدمات میں ان کا ایک مجموعہ’رباعیات عادل‘ ہے اورایک مستزاد کا مجموعہ’رباعیات مستزاد‘ کے نام سے ہے جس میں ۶۱ شعراء قدیم کی اردو فارسی رباعیاں شامل ہیں۔
ان کے علاوہ ”نغمہئ خیام،رباعیات داراشکوہ، رباعیات غنی کشمیری، رباعیات سیف الدین باخرزی کے نام سے کتابیں ترتیب دی ہیں۔ محض اتنا ہی نہیں کہ انہوں نے ان رباعیوں کو ترتیب دے کر اشاعت کروائی ہے بلکہ ان کا اہم کا م یہ ہے کہ انہو ں نے ان رباعیات کا ترجمہ بھی کیاہے۔
رباعیات عادل (2008)ان کی رباعیات کا مجموعہ ہے جس میں ان کی 87رباعیاں شامل ہیں۔ان کے یہاں اخلاق و نصیحت، مذہب،دردو غم، عشق ومحبت اوربیری وغیرہ کے عنوان کے تحت رباعیاں ملتی ہیں۔ انہو ں نے الفاظ کی بازی گری اورشعبدہ بازی کے بجائے آسان اورسہل زبان کا استعمال کیاہے۔
عشق کا موضوع اردو شاعری میں مرکزیت کا حامل ہے۔غزل میں عشقیہ مضامین کو نہایت خوبی سے برتاجارہا ہے۔ رباعی میں بھی یہ موضوع کبھی عشق حقیقی کی شکل میں تو کبھی عشق مجازی کی شکل میں سامنے آتاہے۔ عادل اسیر دہلوی کی رباعیوں میں بھی عشق حقیقی اورعشق مجازی کی آنکھ مچولی نظر آتی ہے:
جب رات میں ہوتا ہے ہجر کا دھوکا
خاشاک پہ ہوتا ہے شرر کا دھوکا
آنکھوں نے مری وہ حسن بھی دیکھا ہے
سب جس کو سمجھتے ہیں نظر کا دھوکا
٭
تقدیر کی سازش ہے کوئی کھیل نہیں
ہر وقت کی کاوش ہے کوئی کھیل نہیں
پروانہ بنا شمع بھی جل جاتا ہے
یہ عشق کی آتش ہے کوئی کھیل نہیں
٭
کیا دوسرا خورشید فلک پر چھایا
دنیا میں اندھیرا نہ کہیں ہے سایا
اک صبح درخشاں مرے گھر میں آئی
یہ کون بدل کر نئے کپڑے آیا
٭
حل ہوں وہ سوالات کہاں تھے بابا
سر ہوں وہ محلات کہاں تھے بابا
اس نے بھی وفا کا نہ کوئی پاس کیا
میرے بھی یہ حالات کہاں تھے بابا
ابتدائی دور میں رباعی کے موضوعات محدود تھے لیکن امجد حیدرآبادی، میر انیس، مرزا دبیر اور جو ش وفراق نے اس کو وسعت دی اور عروج پر پہنچایا۔ بعد ازاں رباعی کے موضوعات میں رنگارنگی او رتنوع کا سلسلہ شروع ہوا اور زندگی کے بیشتر موضوعات پر رباعیاں لکھی گئیں۔
آج رباعی کا فن موضوعاتی اعتبار سے اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ انسانی زندگی کی ہر چھوٹی بڑی باتوں کا ذکر اور اس کے ماحول سے وا بستہ تمام چیزوں کا عکس رباعی میں دیکھا جاسکتاہے۔ عادل اسیر نے بھی رباعی کو موضوعاتی وسعت دی ہے۔ان کی چند رباعیاں دیکھئے:
الفت بھی گوارا نہیں میرے دل کو
نفرت بھی گوارا نہیں میرے دل کو
عزت بھی گوارا نہیں میرے دل کو
ذلت بھی گوارا نہیں میرے دل کو
٭
جلوؤں کی فراوانی نہیں جاتی ہے
بڑھتی ہے یہ حیرانی نہیں جاتی ہے
اس طرح کسی کو میں نے دیکھا عادلؔ
صورت کوئی پہچانی نہیں جاتی ہے
٭
کاہل کو بھی پرجوش بنا دیتا ہے
دیوانے کو باہوش بنا دیتا ہے
انداز مخاطبت کسی کا عادلؔ
مجھ کو ہمہ تن گوش بنا دیتا ہے
انسان زندگی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔اپنے مشاہدات سے وہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے عبرت حاصل کرتاہے اوران پر عمل کرکے اپنی زندگی کو سجاتاہے،سنوارتا ہے۔ رباعی میں اخلاقی واصلاحی پہلو اور عبرت وغیرہ کے موضوعات پر ہر شاعر نے خصوصیت سے طبع آزمائی کی ہے۔
عادل اسیر دہلوی نے بھی ان موضوعات پربہت اچھی اچھی رباعیاں کہی ہیں۔زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں جن کو ہمارے کردار کے لئے بہت ضروری بنایاگیا ہے انہیں عادل اسیر نے اپنی رباعیوں میں بڑے سہل انداز میں پیش کرکے انسان کی رہنمائی کی کوشش کی ہے۔چند رباعیاں دیکھئے:
جب خواب نہ دیکھوگے تو کیسی تعبیر
جب رنگ نہ ہوگا تو کہاں کی تصویر
جب آج نہ بنیاد رکھوگے عادل
کل کس طرح دیوار کروگے تعمیر
٭
نیکی میں کسی کی بھی نہ تحریف کرو
ہو لائق توصیف تو توصیف کرو
احباب کی عادل نہ برائی کرنا
دشمن بھی جو اچھا ہو تو تعریف کرو
٭
دانائی تو غصے کی ہے اک ادنیٰ کنیز
ہیں ہوش و خرد بھی یہاں بیکار سی چیز
ہوجاتا ہے غصے میں جنونی انسان
پھر نیک یا بد کی نہیں رہتی ہے تمیز
عادل اسیرکا رباعی گوئی کے سلسلے میں ایک منفرد کارنامہ’بچوں کی رباعیاں‘ ہے جس کے وہ شاید موجد ہیں۔اس تعلق سے ان کی رباعیوں کے تین مجموعے ’بچوں کی رباعیاں‘،پھول ہی پھول‘ اور ’رنگ برنگ پھول‘کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔
ان تینوں مجموعوں میں صرف بچوں کی مناسبت سے رباعیوں کو شامل کیاگیاہے،جن کو دیکھ کر بڑے بڑے شاعر حیران رہ گئے اوربچوں نے خوب پسند کیا۔
ان کی بیشتر رباعیوں میں بچوں کی نفسیات، پسند ناپسند، کھیل تماشے، روزہ، نماز، تعلیم، اخلاق،استاد، کتاب اور والدین کی تعظیم کو موضوع بناکر بچوں کی دلچسپی کا سامان فراہم کیاگیاہے۔ بچوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے اوربرے کاموں سے رکنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔چند رباعیاں بطور نمونہ ملاحظہ ہوں:
اسکول میں بچہ کہ جو ہوگا معصوم
استاد کو ہوگا وہی پیار معلوم
عزت جو کروگے ہوگے عالم
گستاخ سدا دیکھا علم سے محروم
٭
نادانی سے ہوجائے خطا عیب نہیں
مل جائے کوئی اس پہ سزا عیب نہیں
تعلیم سے بڑھ کر نہیں خوبی کوئی
دنیا میں جہالت سے بڑا عیب نہیں
٭
محفل میں جو بیٹھو تو سلیقہ سیکھو
باتیں بھی کرو مگر قرینہ سیکھو
ہر حال میں ملحوظ رہیں کچھ آداب
احباب سے ملنے کا طریقہ سیکھو
٭
دادی نے نصیحت یہ سنائی اک دن
کیا بات ہے پتے کی یہ بتائی اک دن
نیکی کبھی بیکار نہیں جاتی ہے
آتی ہے بڑے کام بھلائی اک دن
مذکورہ بالا رباعیاں جو بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ان میں کسی خاص انتخاب کا خیال نہیں رکھا گیا۔میرے خیال سے عادل اسیر کی تمام رباعیاں خود ایک انتخاب ہیں۔جس کا اندازہ قاری کو مطالعہ کے بعد ہی ہوپائے گا۔
الغرض عادل اسیر دہلوی نے اردو رباعی کے لئے کئی جہت سے عمدہ کام کیا۔ان کی نظر میں فارسی کی اہم رباعیاں تھیں۔اسی نوعیت کی رباعیاں خود بھی کہی ہیں۔اگر زندگی وفا کرتی تو ہمارے سامنے ان کی متنوع تخلیقات ہوتیں لیکن افسوس 2014 میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور رباعی کا یہ چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا۔