مشاعرہ اب تجارت ہے۔ مشاعرہ اب مداری کا کھیل ہے۔ اب ملک بھر میں زیادہ تر مشاعروں پر ناچنے گانے والوں کا قبضہ ہے۔ یہ میر و غالب کے زمانے کا مشاعرہ نہیں ہے بلکہ یہ فراق، جوش و جگر اور خمار کے زمانے کا مشاعرہ بھی نہیں ہے۔ یہ تال ٹھوک کر للکارنے والے کسی شوہر کانپوری کا مشاعرہ ہے۔ یہ کمر لچکا کر ناچنے گانے والے کسی جبران کرتاب گڑھی کا مشاعرہ ہے۔ یہ سیدھے بیوٹی پارلر سے نکل کر اسٹیج پر پہنچنے والی کسی”مانگے کا اُجالا“ کا مشاعرہ ہے۔ نارتھ ایسٹ کی سات ریاستوں اور کیرل تمل ناڈو کو چھوڑ کر یہ مشاعرے ملک بھر میں برپا ہو رہے ہیں۔ سوائن فلو سے زیادہ خطرناک یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ مشاعرہ باز شاعر اور کنوینر اس سے صرف روزی روٹی نہیں کما رہے ہیں بلکہ فارم ہاؤس بنا رہے ہیں۔
کچھ استاد شاعر نو عمر لڑکیوں کو سادھ رکھے ہیں۔ مانگے کا اجالا لئے پھر رہی ہیں لڑکیاں۔ مشاعرے کے اسٹیج پر جس قدر روشنی اور چکاچوندھ ہوتی ہے اس کے پیچھے کی دنیا اتنی ہی تاریک اور بد رنگ ہے۔ راقم السطور کئی ایسے ”استاد“ شاعروں سے واقف ہے جو الگ الگ شہروں میں الگ الگ لڑکیوں کو راتوں رات ”اسٹار“ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ کنوینر مشاعرہ اور نام نہاد استاد کے درمیان فٹ بال بنیں یہ لڑکیاں ہندی دیوناگری میں لکھی غزلیں لہک لہک کے اور لچک لچک کے گاتی ہیں۔ یہ منظر اب مشاعروں میں عام ہے۔ یہ منظر شرمناک ہے اور زبان اردو کے فروغ سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ لڑکیاں دیو ناگری میں کسی استاد کا دیا کلام پڑھ کے پیسے کما رہی ہیں۔ اور کرپشن کو فروغ مل رہا ہے۔
آج کے مشاعروں کی ایک اور لعنت ہے عوام کے جذبات سے کھیلنا۔ شاعری میں حقیقت بیانی اور چیز ہے اور جذبات بھڑکانا اور چیز ہے۔ آج جذبات سے کھیل رہے ہیں یہ مشاعرہ باز شاعر۔ راقم بھی ایک عرصے تک مشاعروں کی نظامت کے فرائض انجام دیتا رہا۔ اتر پردیش کے ایک قصبہ میں منعقد مشاعرے میں ایک خوش شکل اور خوش گلو شاعرہ نے گجرات فسادات پہ گیت پڑھ کے مشاعرہ لوٹ لیا۔ واہ واہ کی صدا بلند ہوئی تو اس شاعرہ نے ایک ایک کرکے، بھیونڈی، مالے گاؤں، بھاگلپور، میرٹھ، ملیانہ اور مظفر نگر فسادات پہ گیت پڑھ کے داد وصول کی۔ حد تو تب ہو گئی جب ناظم مشاعرہ نے فسادات سے متاثر تمام شہروں کے حوالے سے گیت پڑھنے پر شاعرہ پہ طنز کیا تو اس نے پلٹ کے کہا کہ اگلے برس پھر کہیں فسادات ہوئے تو اس پہ بھی تازہ گیت پیش کرونگی۔
آج کے مشاعرہ باز شاعروں کا پورا ایک ریکیٹ کام کرتا ہے۔ ان کے اپنے اپنے گروہ ہیں۔ یہ گینگ چلا رہے ہیں۔ ان کی مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے الگ شعبے ہیں۔ ایک مشہور مشاعرہ باز شاعر سے میں نے بات کی تو انھوں نے اپنا ریٹ بتایا پچاس ہزار روپے۔ کہنے لگے چونکہ آپ بات کر رہے ہیں تو میں پانچ ہزار روپے کم کر دوں گا۔ میں نے دوسرے روز انھیں بتایا کہ کنوینر نے بتایا ہے کہ ان کا بجٹ کم ہے۔ کہنے لگے کچھ اور کم کر دوں گا۔ آخر میں وہ صاحب پندرہ ہزار روپے پر مشاعرہ پڑھنے گئے۔ لیکن مجھ سے گزارش کی کہ سب کو بتایا جائے کہ وہ پچاس ہزار روپے میں آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ بھائی جب آپ پندرہ ہزار میں آئے ہیں تو کیوں چاہتے ہیں کہ پچاس ہزار بتایا جائے؟ کہنے لگے بھائی آئندہ کے لئے مارکیٹ تو خراب نہ کیجئے۔ سچ بات یہ ہے کہ آج کے یہ مشاعرہ باز شاعر قوم کے جذبات سے کھلواڑ کر کے لاکھوں کی کمائی کر رہے ہیں۔یہ ملک و ملت دونوں کو چونا لگا رہے ہیں۔ ایک اسکول ٹیچر اگر بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پاتا ہے تو وہ بھی دس فیصد ٹیکس دیتا ہے۔ یونیورسٹی اور کالج کے ٹیچر تیس فیصد انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ لیکن مشاعروں کی دنیا میں کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ لاکھوں کی کمائی ٹیکس فری۔ لاکھوں کا یہ لین دین کیش میں ہوتا ہے نہ انکم ٹیکس نہ جی ایس ٹی کا چکر۔ آپ ہندوستان کے طول و عرض میں مشاعرے کے کسی بھی کنوینرسے معلوم کر لیجئے کہ کسی شاعر نے کبھی چیک سے کوئی پیمنٹ لی ہے؟ ایک اوسط درجے کا مشاعرہ باز شاعر دس لاکھ روپے ماہانہ کی کمائی کرتا ہے۔ وہ بھی بغیر ٹیکس دئے ہوئے۔ ان مشاعرہ باز شاعروں نے باقائدہ فارم ہاؤس بنا رکھے ہیں۔ ان کے فارم ہاؤس بنانے پر کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ لیکن ان کے ٹیکس نہیں دینے پر اعتراض ضرور ہے۔ قوم کے جذبات سے کھلواڑ کر کے لاکھوں کی کمائی کرنے والے یہ شاعر مہنگی برانڈیڈ امپورٹیڈ شراب پیتے ہیں اور قوم کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں۔ دراصل شکست خوردہ قومیں ماضی میں جینا چاہتی ہیں۔وہ حال کی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے سے بچنا چاہتی ہیں۔ انھیں ماضی میں پناہ لینے میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔ حرکت و عمل سے بے گانہ یہ قوم رات بھر مشاعرہ سنے گی اور دن بھر اپنی بد قسمتی کا رونا روئے گی۔ اسی شکست خوردہ ذہنیت کو بھنانے کا کام آج کے یہ مشاعرہ باز شاعر کر رہے ہیں۔ زبان کی نز اکتوں سے یہ آج کے مشاعرہ باز شاعر خود واقف نہیں، یہ بھلا اردو زبان و ادب کی کیا خدمت کریں گے۔ ایک وقت تھا کہ مشاعروں سے لوگ زبان بھی سیکھتے تھے اور ادب آداب بھی۔ لیکن آج کے زیادہ تر مشاعرے بے ادبی کا اڈّہ بن چکے ہیں۔ کرپشن کا ایک ادارہ بن چکے ہیں۔ ان سے نجات کا طریقہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں).