ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
سپریم کورٹ نے اراولی پہاڑیوں کے جنگلاتی علاقے کے تحفظ کے لئے ایک سخت حکم نامہ جاری کیا ہے۔ انہوں نے فرید آباد کے ضلعی عہدیداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان 10ہزار کچے مکانات کو ، جو اراولی کے گاوں کھوری کے آس پاس تعمیر ہوئے ہیں ، ڈیڑھ ماہ میں مسمار کردیں۔ یہ مکانات غیر قانونی ہیں۔ جنگل کے تقریبا 100 ایکڑ رقبے میں بنائے گئے یہ مکانات پنجاب لینڈ کنزرویشن ایکٹ 1900 کے خلاف ہیں ، کیونکہ اس علاقے میں اگنے والے درختوں کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہوسکتا ہے۔
ان مکانوں میں بسنے والے ہزاروں افراد کو کچھ جعلی ٹھیکیداروں نے جعلی کاغذات پکڑ کر پلاٹ بیچے۔ ان مکانوں میں رہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو قریبی پتھر کی کانوں میں مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔ جب سے یہ پتھرکی کانیں بند کردی گئی ہیں ، یہ لوگ آس پاس کے علاقوں میں مزدور کی حیثیت سے کام کرکے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس سے قبل عدالت عظمی نے بھی حکومت کو اس جنگل کی اراضی کو صاف کرنے کا حکم دیا تھا ، لیکن اس پر بہت کم عمل کیا گیا۔ پچھلے سال تین سو مکانات مسمار کردیئے گئے تھے لیکن لوگوں نے سرکاری ملازمین پر پتھراو کیا اور ان کی ساری مہم تعطل کا شکار ہوگئی۔ اس بار حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو سخت ہدایات دی ہیں اور ساتھ ہی ملازمین کی مکمل حفاظت کا حکم بھی دیا ہے۔ ان 10 ہزار کچے اور پکے مکانات کے علاوہ ، ارب پتی اور ملک کے رہنماوں نے اراولی کے جنگلاتی علاقوں جیسے رئیسہ ، گارٹ پور باس ، سانپ کی نانگلی ، دمدامہ ، سوہنا ، گوالپہاری ، باندھواڑی وغیرہ میں اپنے پرتعیش فارم ہاوسز بنائے ہیں۔
کیا وہ بھی بلڈوز کئے جائیں گے؟ اگر ہاں تو یہ ان کا بڑا نقصان ہوگا لیکن وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس سے بھی بڑا نقصان یہ ہوگا کہ کچے مکانات والے ہزاروں افراد سڑک پر آجائیں گے۔ اس شدید تپش میں وہ اپنا سر کہاں چھپائیں گے؟ حکومت ان کے لئے کچھ متبادل انتظامات کرے ، یہ ضروری ہے۔
تاہم عدالت نے متبادل انتظامات کرنے کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ لیکن حکومت متعلقہ لینڈ مافیا لوگوں کو کیوں گرفتار نہیں کر سکتی۔ کیوں ان کی جائیداد ضبط نہیں کی جاسکتی؟ اس رقم کو بحالی کے لئے کیوں نہیں استعمال کرسکتی؟ اس کے علاوہ عدالت اور حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ ان افسران کو سزا دیں جن کے دور میں یہ غیر قانونی تعمیرات ہوئیں۔
ان کی جائیداد ضبط کی جائے ، جو ریٹائر ہو چکے ہیں ، ان کی پنشن کو بھی روکا جائے اور جوبرسر خدمت میں ہیں انہیں فارغ کیا جائے۔ یہ غیر قانونی کام صرف ہریانہ میں نہیں ہوا ہے۔ یہ ملک کے ہر حصے میں اندھا دھند ہورہا ہے۔ یہ صحیح وقت ہے ، جب مجرموں کو اتنی سخت سزا دی جائے کہ آئندہ مجرموں کی روح کانپ اٹھے۔
(مضمون نگار مشہور صحافی اور کالم نگار ہیں)