آفتاب سکندر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
مغموم و ملول کردینے والی ہر بات دل پر گہرا نشان چھوڑ جاتی ہے۔ شعبہ تعلیم و تعلم بالخصوص سائنس کمیونٹی کا درد رکھنے والے استادِ محترم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جن کے مضامین میں سائنس کی تعلیم و تعلم کا درد پنہاں نظر آتا ہے. ان کو ایف سی کالج میں ملازمت سے برخواستگی کی افواہ عام ہے۔یہ قوم اپنے محسنین کی ازلی دشمن رہی ہے پھر چاہے وہ ڈاکٹر عبدالسلام ہوں یا پروفیسر اقبال یا پھر کوئی اور ہو۔
ہمارے طلبا، نوجوانانِ ملت میں غم و غصہ بھرا ہوا ہے اس عظیم ہستی کے متعلق ویسے ہی جیسے ڈاکٹر عبدالسلام سے متعلق ان کی رائے ہے۔ اکثر و بیشتر لوگ یہی اختلاف سناتے ہیں کہ آخر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے آج تک اس قوم کے لیے کیاکیا ہے۔ اُن کے فزکس میں کیا کارنامے ہیں انہوں نے فزکس میں کونسا تیر مار رکھا ہے. تو ان کی تعلیم اور تعلیم و تعلم کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اعلیٰ تعلیم امریکہ کی جامعہ میساچو سیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(MIT) میں برقی مہندسیت(electrical engineer) میں گریجویشن کیا۔ ان ایام میں انہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ٹائلٹ میں صاف کر کے، کینٹین پر بیرا (ویٹر) بن کر گزر بسر کے لئے چند روپے کمائے۔
بعدازاں انہوں نے طبعیات اور ریاضیات میں اپنی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ٹھوس حالتِ طبعیات(solid state physics) میں گریجویشن کی اور جوہری طبعیات(nuclear physics) میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔
یہ تمام تر تعلیم اُن کی سائنس سے الفت و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے. وہ ہر لحاظ سے طبعیات کے قعر و قلزم میں غوطہ زن ہوئے ہیں۔درس و تدریس کے سلسلہ میں انہوں نے مختلف جامعات جن ایم آئی ٹی، میری لینڈ جامعہ، جامعہ کارنیگ میلن وغیرہ میں عارضی طور پر درسں و تدریس کے فرائض انجام دئیے ہیں اور پھر ان پر حب الوطنی غالب آگئی اور وہ اپنے ملک میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کی غرض سے پاکستان آگئے۔پاکستان میں انہوں نے جامعہ قائداعظم میں عرصہ دراز تک بطور معلم فرائض سرانجام دئیے اور اُن وقتوں میں جامعہ قائداعظم کا نام تحقیق کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر لیا جاتا تھا اب تو ٹاپ 750 میں بھی نام نہیں رہا ہے۔ اس کے بعد وہ ایف سی کالج سے منسلک تھے درس و تدریس کے سلسلہ میں جو آج کی تاریخ پہ اختتام پذیر ہوا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی وژن پر انہوں نے مختلف سیریزیں شروع کیں اور اچھے خاصے لیکچرز دیئے ہیں طبعیات کے موضوع پریہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ان کے پروگرام کی ریکارڈنگ رات بارہ بجے سے سحر چھ بجے کے دوران ہوتی تھی اور وہ لمبا سفر طے کر کے مشقت طلب مسافت کے باوجود بھی پاکستان کے قومی چینل پر علم کی شمع روشن کرنے کے لئے تگ و دو کرتے رہے ہیں۔ تین مختلف پروگرام نشر ہوتے رہے علاوہ گوگل سکالر پر ان کے بیسیوں تحقیقی پرچہ جات موجود ہیں۔ جن سے اکتسابِ فیض کرنے کی سعی کی جاسکتی ہے اور یوٹیوب پر فزکس لیکچرز بھی موجود ہیں، کچھ لیکچرز تو جدید سائنس کے تصورات گروپ فیملی میں بھی پوسٹ کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ(The bulletin of Atomic scientists) کے وہ کفیل ہیں۔
یہ تو تمام تر کاوشیں ہیں اُن کی سائنس کی تعلیم و تعلم کے قعر و قلزم کے سیلِ رواں کو عام کرنے کے لئے. اس پر بے شک پاکستانی عوام اُن کو داد و تحسین نہ دیتی ہو مگر دنیا اُن کی ان خدمات کے لیے مداح رہی ہے۔ ان کی یہ شمع روشن کرنے کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے 2003 عیسوی میں انہیںUNESCO Kalinga Prize دیا گیا جو ثابت کرتا ہے کہ دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے سائنس کی تعلیم و تعلم کے لیے کاوشیں کی ہیں. ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو 1984 عیسوی میں ڈاکٹر عبدالسلام ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
احباب کو اس بات پر شکوہ ہے اور اس بات پر نوحہ گری کرتے ہیں کہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی طبعیات سے ہٹ کر کیوں بات کرتے ہیں۔کوئی بھی ذی شعور اور عقل رکھنے والا انسان اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اتنا تعلیم یافتہ فرد، سائنس کی تعلیم و تعلم کے لیے اتنی کاوشیں کرنے والا فرد کیا معاشرے کی اصلاح کے لیے نہیں سوچ سکتا اگر وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے سوچ سکتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ پھر معاشرے کی اصلاح کے لئے قلم بھی اُٹھا سکتا ہے کیونکہ اس کو اپنے وطن سے محبت ہے اور اس نے اپنے وطن کی محبت میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تعلیم دینے کی بجائے مملکتِ خداداد پاکستان میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھنے کی سعی کی ہے۔
اس ضمن میں اُن کی تحریر کردہ کتاب سائنس اور اسلام بہت مقبول کتاب ہے جس کے تراجم آٹھ زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ وہ مشعل بکس لاہور کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ علاوہ بہت سی سائنسی اور غیر سائنسی کتب کا ترجمہ بھی کر چکے ہیں. جو کہ پھر سے ثابت کرتا ہے کہ ان کے دل میں سائنسی اور غیر سائنسی تعلیم و تعلم کے لیے درد موجود ہے۔ وہ خواتین کے حقوق کے علمبردار بھی ہیں۔
ان کی بلند پایہ سوچ اور فکر کو بھلے ہی آپ کی شدت پسند عوام نے قبول نہ کیا ہو مگر دنیا نے پھر بھی تسلیم کیا ہے اور امریکن فزیکل سوسائٹی کی جانب سے اُنہیں 2010 عیسوی میں(The Joseph Burton Award) سے نوازا گیا۔ اگلے سال ہی یعنی 2011 عیسوی میں فارن پالیسی میگزین نے اُنہیں دنیا کے سو متاثر کن گلوبل تھنکرز کی فہرست میں شامل کیا۔
یہ تو چند انعامات و اکرامات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے بہت سے انعامات سے نوازا گیا ہے یہاں تک ستارہ امتیاز دینے کی بھی سعی کی گئی حکومتِ پاکستان کی طرف سے مگر انہوں نے واضح انکار کر دیا اور معاشرے کو یہ پیغام دیا کہ میں شہرت یا آپ کے انعامات کا بھوکا نہیں ہوں بلکہ میں اپنے نظریات پر قائم ایک شخص ہوں۔یہاں تک کہ جب بے نظیر بھٹو کے دور میں جامعہ قائداعظم پر شب خون مارنے کی سعی کی گئی اور اساتذہ کو پلاٹ کا لالچ دے کر چپ سادھنے کا کہا گیا تب بھی یہی مردِ حر میدان میں آیا تھا تمام احباب سے گزارش ہے کہ وسعتِ قلبی اور وسعتِ نظری پیدا کریں اور ایسےہیروز کی قدر کریں. ایسا نہ ہو کہ جیسے عبدالسلام کو کھو دیا ان کو بھی کھو دیں۔